*منڈی بہاؤالدین میں مدرسہ کی بندش....حقائق یہ ہیں*


(عبدالقدوس محمدی)
منڈی بہاؤالدین کے دینی مدرسہ کی بندش کی اطلاعات پر صرف ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں تشویش و اضطراب پایا جاتا ہے-ہر کوئ اس ادارے کی بندش کی وجوہات اور اسباب جاننے کی فکر میں ہے اور اس سانحہ کا پس منظر معلوم کرنا چاہ رہا ہے اس لیے چند حقائق پیش خدمت ہیں


 پنجاب کے بہت سے علاقوں میں مدتوں سے بعض پختون فیملیز آباد ہیں اور ان کی کئ عشروں سے قائم آبادیوں کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں وسیع کاروباری اور سماجی نیٹ ورکس بھی موجود ہیں.اسلام آباد راولپنڈی سے نکلیں تو ٹیکسلا ترنول,روات,گوجر خان کے بعد گجرات,منڈی بہاؤالدین الدین,چوآسیدن شاہ,چکوال میں ایسی بڑی بڑی آبادیاں موجود ہیں- ایسی ہی ایک آبادی کے مکینوں نے اپنے بچوں کی دینی تربیت کے لیے پھالیہ منڈی بہاؤالدین میں ایک مکان مختص  کیا,اس میں حفظ قرآن کریم کا سلسلہ شروع کیا- اس ادارے میں 60 کے قریب کمسن بچے حفظ قرآن کریم کی سعادت حاصل کر رہے تھے_ یہ بچے راتوں رات نہیں آئے بلکہ ایک عرصہ لگا,ادارے کی نیک نامی میں اضافہ ہوا,تعلیمی معیار کا چرچا ہوا,ایک بچہ, پھر دوسرا پھر اس کا عزیز پھر کوئ اور رشتہ دار اور یوں رفتہ رفتہ ساٹھ بچے ہوگئے- یہ سب بچے وہ تھے جو منڈی بہاؤالدین اور اس کے قرب و جوار میں مدت  سے آباد ہیں نہ صرف آباد ہیں بلکہ ان کی پیدائش بھی اسی علاقے میں ہوئ لیکن ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ پختون ہیں اور پنجاب میں رہنے کے باوجود پشتو بولتے ہیں


انوارالعلوم کے نام سے قائم ہونے والے اس مدرسہ میں بھی دیگر مدارس کی طرح پولیس اور دیگر اہلکاروں کی آمد و رفت شروع ہوئ,کوائف طلبی,چھان بین,آئے روز نت نئے کوائف فارم,طرح طرح کے اہلکاروں کی آمد اور الگ الگ کہانیاں---خیر یہ توان دنوں کوئ نئ بات نہیں پاکستان کا ہر مدرسہ اور ہر مدرسہ کی انتظامیہ اسی قسم کی صورت حال سے دوچار ہے لیکن مدرسہ انوار العلوم کی انتظامیہ کےلیے دوہری مشکل تھی کہ وہ پختون بھی تھے اور مدرسہ بھی چلا رہے تھے سو ان کا یہ جرم ناقابل معافی ٹھہرا-مدرسہ انتظامیہ نے مقامی علماء کرام ,وفاق المدارس کے ذمہ داران اور دیگر حضرات کو اعتماد میں لیا,ہر روز کی بدلتی ہوئ صورت حال کے بارے میں آگاہ کرتے رہے,منڈی بہاؤالدین میں وفاق المدارس کے مسوول مولانا قاری عبدالواحد  ایک فعال,معاملہ فہم اور حکیم انسان ہیں.ان کی سربراہی میں دیگر ممتاز علماء کرام کی معیت میں ڈی پی او سے ملاقات ہوئ,پھر ڈی سی صاحب سے مذاکرات ہوئے اور اعتراض یہ سامنے آیا کہ این او سی کیوں نہی لیا?جب اس کے جواب میں یہ کہا گیا کہ یہ مکان مدرسہ کے لیے تو بنا ہی نہیں پہلے سے موجود تھا کسی ساتھی نے مدرسہ کے لیے وقف کر دیا اس لیے این او سی کی ضرورت نہیں پڑی.این او سی تو تب لیتے جب مدرسہ کے لیے جگہ خریدتے,مدرسہ کی تعمیر کرنے لگتے- پھر یہ اعتراض کہ اچھا رجسٹریشن کیوں نہیں کروائ? اس کے بغیر کیسے مدرسہ بن گیا? اس پر علماء کرام نے کہا کہ رجسٹریشن کروانے سے ہمیں تو انکار نہیں آپ کے اپنے اہلکار ہی تاخیر کرتے ہیں,ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں- پہلے بھی کئی اداروں کی رجسٹریشن کی فائلیں دفاتر میں پڑی ہیں اور ان پر تاحال کوئ کاروائی عمل میں نہیں لائ گئ اس پر ڈی سی صاحب نے خصوصی ہدایات جاری کیں,رجسٹریشن کیس کو ترجیحی بنیادوں پر چلانے کے احکامات صادر ہوئے لیکن پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد عملی طور پر رجسٹریشن کے لیے کوئ پیش رفت ہونے کے  بجائے ڈرانے دھمکانے اور پریشان کرنے کا سلسلہ مزید تیز کر دیا گیا,بظاہر پولیس اہلکار آتے لیکن وہ ساری بات "اوپر"  والوں اور "اداروں" والوں پر ڈالتے رہے اور بالآخر اس ادارے کو سیل کر دیا گیا-اہل علاقہ پولیس اہلکاروں کی منتیں کرتے رہے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئ,ننھے ننھے بچے زارو قطار روتے رہے لیکن کسی کو ترس نہ آیا اور بالآخر ادارہ مکمل طور پر سیل کر دیا گیا-اس وقت صرف علاقے میں نہیں بلکہ ملک بھر میں تشویش پائ جاتی ہے-ہر لب پر یہ سوال ہے کہ جب ان پختون فیملیز کو کئ عشروں سے منڈی بہاؤالدین میں رہنے کی اجازت ہے,کاروبارکرنے کی اجازت ہے,اسکولز اور دیگر سنٹرز بنانے کی اجازت ہے یہی بچے اگر مزدوری کر رہے ہوتے تو کسی کو اعتراض نہ ہوتا,اینٹوں کے بھٹوں پر کام کر رہے ہوتے تو کسی کو گلہ نہ ہوتا,کاغذ چن رہے ہوتے تو کوئ ادارہ حرکت میں نہ آتا لیکن جب ان بچوں کے لیے کچھ بندگان خدا نے تعلیم کا اور وہ بھی قرآن کریم کی تعلیم کا انتظام کیا تو این او سی اور رجسٹریشن کا بہانہ بنا کر تعلیم کی شمع گل کر دی گئ اور ان بچوں کو دھکے دے کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا
ناطقہ سربگریباں ہے



اگر پختون ہر کر پنجاب میں بسنا جرم ہے تو پھر ان سب آبادیوں کو مسمار کر دیجئے,منڈی بہاؤالدین,گجرات اور دیگر علاقوں کے سب پختونوں کے کاروبار لپیٹ دیجیے,ان کو یہاں سے بےدخل کر دیجیے اور نئے پاکستان میں یہ سب ممکن ہے تجاوزات کے نام پر کسی اور بہانے سے کچھ بھی کیا جا سکتا ہے سو کر گزرئیے لیکن اگر یہ سب نہیں کرنا تو خدا کے لیے صرف قرآن پڑھنے والے معصوم بچوں کے ہاتھوں سے اللہ کا قرآن مت چھینیے 


ان کے لیے مدارس کے دروازے مت بند کیجیے




!



Share To:

Unknown

Post A Comment:

0 comments so far,add yours