Articles by "اسلام و ادب"
Showing posts with label اسلام و ادب. Show all posts


*میڈیا سنٹر وفاق المدارس العربیہ پاکستان*

اسلام آباد/لاہور/کراچی(28دسمبر2018ء)حکومت آئین پاکستان کے منافی اقدامات سے گریز کرے, اسلامی تہذیب و تمدن ملک و ملت کی بقاء اور نوجوانوں کے بہتر مستقبل کی ضامن ہے,سینما گھروں کی جگہ تعلیمی ادارے بنائے جائیں,آرٹ کونسل میں رقص کی اجازت دینے کی بجائے ہم نصابی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کیا جائے,اسلامی شعائر کے منافی اقدامات کسی طور پر قابل قبول نہیں,ریاست مدینہ کا نام لے کر ثقافت مدینہ کے منافی پالیسیاں تشکیل دینے سے گریز کیا جائے ان خیالات کا اظہار وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے قائدین مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر,مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی,مولانا انوار الحق,
مولانا محمد حنیف جالندھری,مولانا قاضی عبدالرشید,مولانا امداد اللہ,مولانا سعید یوسف,مولانا حسین احمد,مولانا زبیر صدیقی,مولانا مفتی صلاح الدین ایم این اے,مولانا اصلاح الدین اور دیگر نے مختلف مقامات پرجمعہ کے اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کیا-وفاق المدارس کے قائدین نے کہا کہ تسلسل سے ایسی اطلاعات مل رہی ہیں جو پوری قوم کے لیے تشویش اور اضطراب کا باعث ہیں-حکمران نظریہ پاکستان اور اسلامی تہذیب و تمدن کےمنافی اقدامات سے گریز کریں- انہوں نے کہا کہ ایک طرف بجٹ نہ ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹا جا رہا ہے جب کہ دوسری طرف ایک خطیر رقم سے سینماگھر بنانے کا اعلان کیا گیا جو پوری قوم کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے-انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے پہلے بسنت کا اعلان کیا,اس کی گرد نہیں چھٹی تھی تو آرٹس کونسل میں رقص کا شوشہ چھوڑ دیا گیا,ادھر دانش اسکولز سے ڈاڑھی اور پردے کے خلاف اقدامات کی اطلاعات آ رہی ہیں جو انتہائ افسوس ناک اور قابل مذمت ہیں-وفاق المدارس کے قائدین نے مطالبہ کیا کہ سینما گھروں کی جگہ تعلیمی ادارے بنائے جائیں اور آرٹ کونسل میں رقص کی جگہ ہم نصابی سرگرمیوں کا سلسلہ شروع کیا جائے-خطباء نے مطالبہ کیا کہ حکمران ریاست مدینہ کا نام لے کر ثقافت مدینہ سے متصادم پالیسیاں تشکیل دینے سے گریز کریں-جمعہ کے اجتماعات کے دوران ملک بھر میں حکومت کی اسلامی تعلیمات کے منافی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور مختلف مساجد میں حکومت کے آئین پاکستان سے متصادم فیصلوں کے خلاف قراردادیں بھی منظور کی گئیں#
( *جاری کردہ:عبدالقدوس محمدی مرکزی میڈیا سنٹر وفاق المدارس العربیہ پاکستان* )










*میڈیا سنٹر وفاق المدارس العربیہ پاکستان*

2018 کے ساتھ ساتھ علم و عمل کا سورج بھی غروب,

وفاق المدارس کی امتحانی کمیٹی کے رکن مولانا رشید اشرف سیفی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے,مولانا مفتی تقی عثمانی کی معرکة الآرا کتاب درس ترمذی مرتب کی,برسوں دارالعلوم کراچی میں تدریسی فرائض سرانجام دئیے,وفاق المدارس کی امتحانی کمیٹی کے رکن تھے,قائدین وفاق المدارس کا اظہار تعزیت,مولانا رشید اشرف سیفی کی دینی اور تعلیمی خدمات ہمیشہ یاد رہیں گی

اسلام آباد/کراچی ( ) تفصیلات کے مطابق جامعہ دارالعلوم کراچی کے بزرگ استاذ اور وفاق المدارس کی امتحانی کمیٹی کے اہم رکن مولانا رشید اشرف سیفی طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے- آپ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع کے نواسے اور مولانا مفتی رفیع عثمانی اورمولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے بھانجے تھے-علمی خانوادے سے تعلق کے باعث علمی تحقیقی اور تدریسی ذوق پایا تھا,مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے علوم ومعارف امت تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا بالخصوص شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی کئ جلدوں پر محیط کتاب درس ترمذی کو مرتب کرنے کا اعزاز پایا-مولانا رشید اشرف سیفی وفاق المدارس کی امتحانی کمیٹی کے اہم رکن تھے اور وفاق المدارس کے مثالی نظام امتحان میں مولانا رشید اشرف سیفی کا کلیدی کردار تھا-مولانا رشید اشرف سیفی کٸی دنوں سے علیل تھے اورزیر علاج تھے-وفاق المدارس کے میڈیا کوارڈینٹر مولانا طلحہ رحمانی کے مطابق مولانا مرحوم کی عمر 62 برس تھی،تقریبا 41 برس قبل جامعہ دارالعلوم کراچی سے فراغت کے بعد تدریسی و تصنیفی خدمات میں مصروف رھے،مولانا مرحوم کو اللہ بہترین انتظامی صلاحیتوں سے نوازا تھا،مولانا کے انتقال سے ملک بھر کے تعلیمی حلقوں میں سوگواری کی فضاءچھاگٸی،
مولانا رشید اشرف کی رحلت پر وفاق المدارس کے قائدین مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر,مولانا انوار الحق حقانی،مولانا محمد حنیف جالندھری، صوباٸی نظماء مولانا امداداللہ یوسف زٸی،مولانا قاضی عبدالرشید،مولانا حسین احمد،مفتی صلاح الدین،مولانا زبیر احمد صدیقی،مولانا اصلاح الدین حقانی،مفتی محمد طیب،مولانا عبدالمجید،مولانا عبدالقدوس محمدی سمیت دیگر منتظمین و مسٶلین نے وفاق المدارس کے ناٸب صدر مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی و مفتی محمد تقی عثمانی سے ان کے بھانجے کے انتقال پہ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تدریسی,تصنیفی اور ملی خدمات کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور ان کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا دریں اثناء اندرون وبیرون ملک ہزاروں کی تعداد میں مولانا رشید اشرف کے تلامذہ,شاگردوں,وفاق المدارس کے متعلقین کی جانب سے اور ملک بھر کی مساجد ومدارس میں مولانا رشید اشرف کے درجات کی بلندی کے لیے خصوصی دعاوں کا سلسلہ شروع کردیا گیاہے-مولانا مرحوم نے بیوہ تین بیٹے اور چار بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔مولانا کی نماز جنازہ جامعہ دارالعلوم کراچی میں ادا کی جاٸے گی۔

*جاری کردہ*
*میڈیا سینٹر وفاق المدارس العربیہ پاکستان*
*W M A S 0122*



شکریہ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ!
ازقلم: مولانا زاہدالراشدی
گزشتہ دنوں افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے اعلان پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک کالم میں ہم نے شکریہ ادا کیا تو بعض دوستوں نے اس پر الجھن کا اظہار کیا، مگر اب اس سے بڑا ایک شکریہ ادا کرنے کو جی چاہ رہا ہے اس لیے ان احباب سے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اپنے حالیہ دورۂ بغداد کے دوران صدر ٹرمپ نے امریکہ کے عالمی پولیس مین کے کردار کے اختتام کا اعلان کیا ہے اور اپنے (۱) سب سے پہلے امریکہ (۲) کثیر القومی اتحادوں اور (۳) مشرق وسطٰی کی جنگوں سے علیحدگی کے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ یہ انصاف نہیں کہ سب کا بوجھ ہم برداشت کریں، اب ہم ان کاموں کے لیے فنڈ نہیں دیں گے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم اس وقت پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں حتٰی کہ ان ملکوں میں موجود ہیں جن کا کسی نے نام بھی نہیں سنا، یہ مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں امریکی فوج کی تعیناتی میں توسیع کی امریکی جرنیلوں کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ نے بغداد کا یہ دورہ عراق میں تعینات فوجیوں کو کرسمس کی مبارکباد دینے کے لیے کیا تھا۔
امریکی صدر کے اس بیان کی تفصیلات پر غور کرتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔ ویسا ہی خواب جو امریکہ کے سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر کنگ نے صدر جان ایف کینیڈی کے دور صدارت میں واشنگٹن میں سیاہ فام امریکیوں کے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے اپنی قوم کو دکھایا تھا اور وہ صرف خواب نہیں رہا تھا بلکہ جلد ہی اس نے تعبیر کا جامہ بھی پہن لیا تھا۔ صدر ٹرمپ جب برسر اقتدار آئے تھے تو ہم نے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ اس قسم کے صاف گو لوگ دو دھاری تلوار ہوتے ہیں جو دونوں طرف چلنے کی یکساں صلاحیت رکھتے ہیں، اور اس توقع کا اظہار بھی ہم نے کیا تھا کہ اب امریکی پالیسیوں پر پیچدار ڈپلومیسی کی دھند کم ہوگی اور بہت کچھ صاف دکھائی دینے لگے گا، چنانچہ دھیرے دھیرے اسی طرف بات بڑھتی نظر آرہی ہے۔
امریکہ نے پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی قیادت کے محاذ پر یورپین قوتوں کے اضمحلال کو دیکھتے ہوئے ان کی جگہ سنبھالنے کا فیصلہ کیا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما اور ناگاساکی سے عالمی چودھراہٹ میں دھماکہ دار انٹری کے ساتھ ایک نئی اور سائنٹیفک چودھراہٹ کا آغاز کیا تھا جو کچھ عرصہ تو ریموٹ کنٹرول رہی مگر آہستہ آہستہ اس نے چلمن سرکاتے ہوئے عراق، شام اور افغانستان میں اس چودھراہٹ کا آخری سین بھی دکھا دیا۔ ورنہ جنگ عظیم اول سے پہلے کا امریکہ آج کے امریکہ سے قطعی مختلف تھا اور تاریخ کے ہمارے جیسے طالب علموں کو امریکہ کے ماضی اور حال یعنی جنگ عظیم سے قبل اور بعد کے امریکہ میں مطابقت کے پہلو تلاش کرنے میں خاصی دشواری ہوتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اب سے تین عشرے قبل جب میں پہلی بار امریکہ گیا تو جیفرسن کی یادگار اور پینٹاگون کے درمیان چند کلومیٹر کا فاصلہ مجھے صدیوں کا سفر لگا، اور جیفرسن کی یادگار کے سائے میں کھڑا میں سوچتا رہ گیا کہ کیا جیفرسن اسی امریکہ کا صدر تھا اور کیا ابراہام لنکن او رجارج واشنگٹن نے اسی امریکہ کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا تھا؟
یہ سوچنا امریکیوں کا کام ہے کہ گزشتہ پون صدی کی عالمی چودھراہٹ نے انہیں کیا دیا ہے اور ان سے کیا کچھ چھین لیا ہے؟ ان کا یہ سفر مستقبل کے لیے تھا یا وہ اپنے ماضی سے محروم ہونے کے راستے پر سفر کرتے رہے ہیں؟ مگر تاریخ اور سماج کے کسی طالب علم کے لیے یہ بات بہرحال اطمینان کے ایک پہلو کی حیثیت رکھتی ہے کہ امریکی صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی قوم کے نفع و نقصان کو انصاف کے ترازو پر جانچنے کی سوچ رکھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے امریکہ، کثیر القومی اتحادوں اور مشرق وسطٰی کی جنگوں سے علیحدگی کا جو ایجنڈا پیش کیا ہے اس کی نزاکتوں، حساسیت اور منفی و مثبت اثرات سے ہم بے خبر نہیں ہیں اور اسی لیے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے سے ہچکچا رہے ہیں۔ مگر کسی امریکی صدر کی یہ بات بھی خوشی کی بات ہے کہ انہیں امریکہ کے عالمی پولیس مین ہونے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ ہم مزید تفصیلات میں جائے بغیر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں اور ان سے کسی حد تک یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ شاید موجودہ امریکی قوم کو جنگ عظیم اول سے پہلے کے امریکہ سے روشناس کرانے میں کامیاب ہو جائیں۔
ہفت روزہ خدام الدین کے پرانے رسائل:
قارئین کو یاد ہوگا کہ محترم صلاح الدین فاروقی، مولانا صالح محمد حضروی اور راقم الحروف نے جماعتی، مسلکی اور تحریکی تاریخ کو منضبط کرنے کی غرض سے ایک پروگرام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت پہلے مرحلہ میں ہفت روزہ ترجمان اسلام اور ہفت روزہ خدام الدین کا ریکارڈ مکمل کرنے کے منصوبہ پر کام جاری ہے۔ محترم صلاح الدین فاروقی نے اس مقصد کے لیے کم و بیش دس شہروں کا دورہ کر کے دستیاب رسائل کی فہرستیں مرتب کی ہیں۔ ہم ان دو رسائل کی مکمل جلدیں مرتب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے گزشتہ ہفتہ کے دوران ہماری ایک میٹنگ جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم میں مولانا مفتی محمد شریف عامر اور مولانا قاری ابوبکر صدیق کے ساتھ ہوئی ہے جس میں آئندہ کی ترتیب طے پائی ہے۔ احباب سے اس سلسلہ میں دعا کی درخواست کے ساتھ یہ گزارش ہے کہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور کے درج ذیل تاریخوں کے رسائل اگر کسی دوست کے پاس موجود ہوں تو ان تک رسائی میں تعاون فرمائیں۔
(20-مئی-1955) (27-مئی-1955) (10-جون-1955) (17-جون-1955) (1-جولائی-1955) (8-جولائی-1955) (19-جولائی-1955) (26-جولائی-1955) (12-اگست-1955) (9-ستمبر-1955) (22-جنوری-1982) (29-جنوری-1982) (12-فروری-1982) (9-جولائی-1982) (1-مارچ-1985) (14-مارچ-1985) (28-مارچ-1985) (5-اپریل-1985) (25-جون-1985)
(مطبوعہ: روزنامہ اسلام، 30 دسمبر 2018ء)



حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ

از قلم: حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی زیارت و ملاقات سب سے پہلے 1984ء میں ہوئی تھی جب وہ رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے اور راقم الحروف بھی عمرہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں حرم پاک میں تھا۔ حضرت مولانا ندویؒ اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ محترم سعدی صاحب مرحوم کے مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے جبکہ میں اپنے خالو محترم مفتی محمد اویس خان ایوبیؒ کا مہمان تھا جو اُن دنوں جامعہ ام القریٰ میں زیر تعلیم تھے اور اب وہ میر پور آزاد کشمیر کے ضلع مفتی ہیں۔
مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا علی میاںؒ (مولانا ندویؒ ) کو زندگی میں پہلی بار وہاں دیکھا بلکہ مولانا ندویؒ کے ساتھ بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کا موقع بھی ملا اور ان کے بڑھاپے اور ضعف کے پیش نظر انہیں بازوؤں کے حصار میں رکھتے ہوئے ہجوم سے بچانے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اور پھر سعدی صاحب مرحوم کے مکان پر دونوں بزرگوں کے ساتھ ملاقات و گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی۔
اس دور میں پاکستان کی صورت حال یہ تھی کہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کا اقتدار عروج پر تھا اور جمعیۃ علماء اسلام MRD میں شرکت کے سوال پر دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ اپنا تعارف جمعیۃ علماء اسلام کے حوالہ سے کروایا جس سے مولانا ندویؒ ذہنی تحفظات کا شکار ہوگئے اور پھر پاکستان کے حوالہ سے بہت سے امور کا تذکرہ ہونے کے باوجود ان کی زبان سے کوئی تبصرہ سننے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی کتابوں اور تحریرات سے تعارف بہت پرانا تھا اور طالب علمی کے دور میں ہی ان کی بہت سی تحریروں کا مطالعہ کر چکا تھا۔ ایک دور ایسا بھی گزرا کہ وہ عرب نیشنلزم کے سخت ترین ناقدوں میں سے تھے اور عرب نیشنلزم اور ترک نیشنلزم کی تحریکوں کو خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کا باعث قرار دیتے ہوئے نیشنلزم کے علمبردار بالخصوص مصر کے جمال عبد الناصر مرحوم اور ترکی کے مصطفی کمال اتاترک کو تنقید کا بطور خاص نشانہ بناتے تھے۔ جبکہ میرا تعلق اس طبقہ سے تھا جو نہر سویز کی جنگ اور برطانوی استعمار کے خلاف معرکہ آرائی کی وجہ سے جمال عبد الناصر مرحوم کا مداح تھا اور ان کی فکری تحریک کو عالمی استعمار سے عربوں کی آزادی کا ذریعہ تصور کرتا تھا۔ مگر اس فکری اختلاف کے باوجود مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے ساتھ عقیدت اور ان کی تحریروں کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔
مغربی ثقافت اور جدید کلچر کی نقاب کشائی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تعارف کے حوالہ سے ان کی تحریریں میرے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث تھیں۔ اور کئی جلدوں پر محیط ان کی ضخیم تصنیف ’’کاروان دعوت و عزیمت‘‘ نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا جس میں انہوں نے امت مسلمہ کے ان ارباب عزیمت و استقامت کی جدوجہد سے نئی نسل کو متعارف کرایا ہے جو ہر دور میں ارباب اقتدار کی ناراضگی اور غیظ و غضب کی پروا کیے بغیر حق اور اہل حق کی نمائندگی کرتے رہے ہیں، اور حق گوئی کی پاداش میں انہیں بے پناہ مصائب اور مشکلات کا شکار ہونا پڑا۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ بھارت کے معروف علمی ادارہ ’’ندوۃ العلماء لکھنو‘‘ کے سربراہ تھے۔ اور ندوہ صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک علمی و فکری تحریک کا نام ہے جس نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر برطانوی استعمار کے تسلط کے بعد ملت اسلامیہ کو بیدار رکھنے اور اس کے دینی و ثقافتی تشخص کی حفاظت کے لیے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اور اس حوالہ سے ہماری ملی تاریخ میں علی گڑھ یونیورسٹی اور دارالعلوم دیوبند کے ساتھ جو تیسرا نام ناقابل فراموش حصہ بن چکا ہے وہ ندوۃ العلماء لکھنو ہے جس کی بنیاد وقت کے ایک باخدا شخص مولانا سید محمد علی مونگیریؒ نے رکھی جبکہ مولانا شبلی نعمانیؒ اور مولانا سید سلیمان ندویؒ جیسی عبقری شخصیتوں نے اسے پروان چڑھایا۔
ندوہ نے علی گڑھ اور دیوبند کی دو انتہاؤں کے درمیان توازن اور جامعیت کی ایک نئی راہ اپنائی اور اسلامی تاریخ کو ثقاہت و استناد کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھال کر نئی نسل کا رشتہ اپنے شاندار ماضی کے ساتھ استوار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے علامہ سید سلیمان ندویؒ کے پاکستان چلے آنے کے بعد ندوہ کی سیادت سنبھالی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس فکر کا دائرہ برصغیر سے نکل کر پورے عالم اسلام تک پھیلتا چلا گیا۔ اردو تو مولانا ندویؒ کی گھر کی زبان تھی مگر عربی کو بھی ان سے کبھی اجنبیت کی شکایت نہ ہوئی۔ وہ عربی ایسی قدرت اور روانی کے ساتھ بولتے اور لکھتے تھے کہ خود عربوں کو اس پر حیرت ہوتی تھی۔ میں نے بعض عرب دانشوروں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کا خطاب اس لیے سنا کرتے تھے کہ ان کی زبان کی چاشنی اور سلاست و فصاحت کا حظ اٹھا سکیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ صرف ندوۃ العلماء کے سربراہ اور نمائندہ نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق جہاد بالاکوٹ کے عظیم جرنیل سید احمد شہیدؒ کے خاندان سے بھی تھا۔
گزشتہ سال دل میں ایک جذبہ ابھرا کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے بیعت کی درخواست کی جائے اور ان سے ان کی سند کے ساتھ روایت حدیث کی اجازت حاصل کی جائے۔ میرا بیعت کا تعلق شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے فرزند و جانشین حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ سے تھا جنہوں نے زندگی بھر شفقت و اعتماد سے نوازا۔ ان کی وفات کے بعد حضرت لاہوریؒ کے خلفاء میں سے مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے ساتھ فکری ہم آہنگی اور طبعی مناسبت سب سے زیادہ تھی اس لیے ان سے یہ تعلق قائم کرنے کا ارادہ بن گیا۔ مگر دو تین برس سے وہ علالت کی وجہ سے لندن تشریف نہ لے جا سکے جبکہ ایک سال قبل لاہور تشریف لائے اور ملاقات بھی ہوئی مگر رش کی وجہ سے عرض مدعا نہ کر سکا۔ چنانچہ عریضہ لکھ کر دونوں امور کی درخواست کی جس کے جواب میں ابھی چند ماہ قبل ان کا گرامی نامہ گوجرانوالہ میں موصول ہوا جس میں انہوں نے درخواست بیعت قبول کرتے ہوئے بیعت کے دائرہ میں شامل کرنے کے علاوہ اپنی اسناد کے ساتھ حدیث نبویؐ علیٰ صاحبھا التحیۃ والسلام کی روایت کی اجازت بھی مرحمت فرما دی۔
اس طرح حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے ساتھ عقیدت و محبت اور فکری استفادہ کے تعلق کے ساتھ تلمذ و ارادت کا شرف بھی شامل ہوگیا۔ البتہ اس سے اگلا مرحلہ مقدر میں نہیں تھا اور میں ابھی اس پروگرام کا تانا بانا بن رہا تھا کہ کسی بہانے بھارت کا ویزا ملے تو شیخ و استاذ کی حیثیت سے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی ایک بار پھر زیارت کی سعادت نصیب ہو جائے۔ مگر بیسویں صدی کے آخری روز برطانیہ کے شہر برنلی کی جامع مسجد فاروق اعظم میں ایک روزہ قیام کے دوران حضرت مولانا علی میاںؒ کی سرپرستی میں چلنے والے جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی نے فون پر یہ جانکاہ خبر دی کہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ آج صبح رائے بریلی انڈیا میں زندگی کا سفر مکمل کر کے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو چکے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کی حسنات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، اور ان کے علم و فکر کے گلشن کو تا قیامت آباد رکھیں، آمین یا رب العالمین۔
(روزنامہ اوصاف، ۱۴ جنوری ۲۰۰۰ء)




جهگی نشینوں کی تعلیم و تربیت کا منصوبہ


 ازقلم: حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب

16 دسمبر کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں غیث ویلفیئر اینڈ ایجوکیشن ٹرسٹ کا ایک سیمینار ہوا جس میں مجھے بطور خاص شرکت کی دعوت دی گئی اور میں نے ٹرسٹ کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے علاوہ کچھ گزارشات بھی پیش کیں۔ یہ ٹرسٹ چند علماء کرام اور ان کے رفقاء پر مشتمل ہے جن میں ہمارے بعض شاگرد اور ساتھی بھی شریک ہیں جو ’’جھگی تعلیمی پروجیکٹ‘‘ کے عنوان سے خانہ بدوشوں میں اصلاح و ترقی اور تعلیم و تربیت کے حوالہ سے سرگرم عمل ہے اور جھگیوں میں جا کر ان کی دینی تعلیم، دعوت و اصلاح اور ان کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ میں اس سے قبل بھی ان کے بعض پروگراموں میں شریک ہو چکا ہوں اور وہ وقتاً فوقتاً مشاورت میں مجھے شامل رکھتے ہیں۔



خانہ بدوش ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ہیں جو ناداری اور غربت کے ماحول میں اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں، بنیادی ضروریات زندگی سے محروم زندگی گزارتے ہیں اور کسی سطح کے معاشرتی مقام و مرتبہ سے بہرہ ور نہیں ہیں، حتٰی کہ ان کے پاس بیٹھنا یا انہیں اپنے پاس بٹھانا بھی ہتک سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ سیمینار میں یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ مجموعی طور پر پاکستان میں خانہ بدوشوں کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے جو ایک جگہ نہ ہونے کی وجہ سے کسی شمار میں نہیں ہیں۔ ان کی دینی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور انسانی مقام و حیثیت بھی قابل ذکر نہیں ہے۔ سیمینار میں بتایا گیا کہ جب علماء کرام، دینی کارکن یا درد دل سے بہرہ ور کچھ لوگ ان کی جھگیوں میں جاتے ہیں تو ان میں سے اکثر رونے لگ جاتے ہیں کہ کیا ہم بھی اس قابل ہیں کہ ہمارے پاس کوئی آئے اور ہمارا حال پوچھے، یا ہم بھی یہ حیثیت رکھتے ہیں کہ قریب کی کسی مسجد میں جائیں اور نماز جماعت کے ساتھ پڑھ لیں! ایک صاحب نے ان دوستوں کو بتایا کہ ہم میں سے کوئی شخص کسی مسجد میں جا کر جماعت میں شریک ہوتا ہے تو ساتھ والا نمازی اپنی جگہ تبدیل کر لیتا ہے۔ یہ صرف چند پہلو ہیں جن سے ان بے چاروں کی حالت زار کا کچھ نہ کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے ورنہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ دگرگوں ہے۔ ہمارے یہ دوست جھگیوں میں جاتے ہیں، انہیں کلمہ طیبہ، نماز، فرائض اور حلال و حرام کی بنیادی تعلیم سے آگاہ کرتے ہیں اور بہت سے قاری حضرات وہاں جا کر کلاسیں لگاتے ہیں، بحمد اللہ تعالٰی یہ سلسلہ ملک بھر کے مختلف اضلاع میں پھیل چکا ہے اور توسیع و ترقی کا عمل مسلسل جاری ہے۔


میں نے ٹرسٹ کے احباب کا شکریہ ادا کیا کہ وہ ہم سب کی طرف سے فرض کفایہ کے طور پر ایک انتہائی اہم دینی، سماجی، تعلیمی اور رفاہی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔لاہور میں ان کا دفتر لبرٹی پلازہ، لنک روڈ، ماڈل ٹاؤن کی پہلی منزل میں ہے اور ان فون نمبروں پر ان سے رابطہ کیا جا سکتا ہے 03064412836 اور 04235447371۔ ٹرسٹ کی جانب سے جاری کیا جانے والا تعارفی مضمون قارئین کی معلومات کے لیے پیش کیا جا رہا ہے.


’’خانہ بدوشوں میں کام کی وجہ یہ ہے کہ ہزاروں فلاحی تنظیموں کی موجودگی کے باوجود خانہ بدوش طبقہ ہمیشہ توجہ سے محروم رہا ہے۔ اور عام غریب کی غربت اور خانہ بدوشوں کی غربت میں ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ عام غریب اپنی غربت سے لڑنے کے لیے جائز راستہ اختیار کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ اگر دنیا کی زندگی تنگ دستی کی حالت میں بھی گزارتا ہے تو اپنی آخرت کو بربادی سے بچانے کی کوشش ضرور کرتا ہے، جبکہ خانہ بدوش شعور کی کمی کی وجہ سے غلط راہ پر چل کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو برباد کر بیٹھتا ہے۔ ان خانہ بدوشوں کو شعور فراہم کر کے سول سوسائٹی اور خانہ بدوشوں کے درمیان حائل وسیع خلیج کو پاٹنے کے ساتھ ساتھ انہیں دنیا و آخرت میں سرخرو دیکھنا ہمارا مقصد ہے۔


* جس طرح ہر شخص دنیا میں کامیاب زندگی گزارنا چاہتا ہے اسی طرح ایک خانہ بدوش کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ ایک کامیاب زندگی گزارنے کی کوشش کرے۔ مگر شعور کی کمی کی وجہ سے ایک خانہ بدوش جس چیز کو دنیاوی کامیابی کا مدار گردانتا ہے وہ درحقیقت بہت بڑی ناکامی ہوتی ہے۔ خانہ بدوشوں کو شعور کی فراہمی کے ذریعے انہیں دنیا کی کامیابیوں کی حقیقتوں سے روشناس کروانا ہماری ذمہ داری ہے۔


* آخرت کی زندگی میں کامیابی ہر انسان کی وجہ تخلیق ہے مگر خانہ بدوش افراد مختلف جرائم میں ملوث ہو کر اپنی اخروی زندگی تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ انہیں اس بھولے ہوئے فرض کی یاددہانی کروانا ضروری ہے تاکہ وہ جرائم سے تائب ہو کر اخروی کامیابی کے حصول کی جانب گامزن ہو سکیں۔


* خانہ بدوشی کا خاتمہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک تو یہ لوگ اپنی زندگی گزارنے کے لیے دوسروں پر انحصار کر کے انسانیت کے درجے سے گر جاتے ہیں اور دوسری جانب ان کی وجہ سے معاشرہ مختلف قسم کی سماجی برائیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ تعلیم و تربیت کے ذریعے خانہ بدوشوں کو اس طرز زندگی سے کنارہ کش کروانے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ان کے اندر انسانیت کی حقیقی صفات پیدا ہوں اور معاشرے سے برائی کا خاتمہ بھی ہو۔


* جس طرح ہر انسان اپنی صلاحیتوں کے ذریعے قومی اور عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے اسی طرح خانہ بدوشوں کو بھی یہ موقع ملنا چاہیے۔ جس طرح عام لوگوں میں انفرادی صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں اسی طرح خانہ بدوش بھی ان صلاحیتوں سے محروم نہیں۔ غیث ویلفیئر ٹرسٹ ان کی صلاحیتوں کو مہمیز دے کر خانہ بدوشوں کو اس قابل بنانا چاہتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر قومی اور عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کر سکیں۔ ‘‘



(روزنامہ اسلام، 22 دسمبر 2018ء)



کرسمس، عید میلاد المسیحؑ اور اسلام


 ازقلم : مولانا زاہدالراشدی صاحب

ہر سال 25 دسمبر کو مسیحی مذہب کے پیروکار کرسمس مناتے ہیں جو ان میں سے اکثر کے بقول سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یومِ ولادت ہے۔ چنانچہ مسیحیوں کے مذہبی حلقے اسے ’’عید میلاد المسیح‘‘ کا نام دیتے ہیں جبکہ عمومی مسیحی حلقے اسے ایک قومی دن کے طور پر پوری دنیا میں جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہ دن بھرپور انداز میں منایا جاتا ہے اور مسیحی مذہب کے پیروکار مختلف تقریبات اور پروگراموں کے ذریعے حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس حوالے سے آج ہم سیدنا حضرت عیسٰیؑ کی ذات بابرکات کے ساتھ اپنی عقیدت و محبت کا اسلامی تعلیمات کے حوالے سے اظہار کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے قرآن و حدیث میں حضرت عیسٰی علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں بیسیوں مقامات پر بکھرے ہوئے تذکروں میں سے چند ایک کا ذکر کریں گے۔


سیدنا حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں اہل اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں، ان کی والدہ محترمہ حضرت مریمؑ پاک باز خاتون تھیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت سے معجزے کے طور پر بغیر باپ کے پیدا کیا اور نبوت اور رسالت سے نوازا۔ حضرت عیسٰیؑ بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر تھے، انہیں چار بڑی آسمانی کتابوں میں سے ایک کتاب انجیل دی گئی۔ یہودیوں نے دشمنی میں انہیں قتل کرنا چاہا مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا۔ انہیں ابھی تک موت نہیں آئی اور نہ وہ سولی پر چڑھائے گئے بلکہ وہ اسی دنیوی حیات کے ساتھ آسمانوں پر موجود ہیں، قیامت سے پہلے دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے، دجال اکبر کا مقابلہ کر کے اسے شکست دیں گے اور اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کریں گے۔ مسلمانوں کے اس وقت کے امیر حضرت امام مہدی کے ساتھ مل کر دنیا میں پھر سے آسمانی تعلیمات کی حکمرانی، جسے مسلمانوں کی اصطلاح میں خلافت کہا جاتا ہے، قائم کریں گے۔ حضرت عیسٰیؑ کچھ عرصہ حیات رہیں گے، ان کی شادی ہوگی، بچے ہوں گے اور پھر وہ وفات پائیں گے جس کے بعد انہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر میں سپرد خاک کر دیا جائے گا جہاں آنحضرتؐ، حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی تین قبروں کے ساتھ ایک قبر کی خالی جگہ موجود ہے اور اسے حضرت عیسٰیؑ کی قبر کے لیے مخصوص رکھا گیا ہے۔

قرآن کریم میں مختلف مقامات پر حضرت مریمؑ اور حضرت عیسٰیؑ کا تذکرہ موجود ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

سورہ البقرہ کی آیت ۸۷ اور آیت ۲۵۳ میں ارشاد خداوندی ہے کہ ہم نے حضرت موسٰیؑ کو کتاب (توراۃ) دی اور ان کے بعد لگاتار نبی بھیجے اور حضرت عیسٰیؑ کو ہم نے کھلے معجزات دیے اور روح القدس کے ساتھ ان کی مدد کی۔

سورہ آل عمران کی آیت ۳۵ تا آیت ۶۰ میں حضرت مریمؑ کی ولادت و پرورش اور پھر اس کے بعد حضرت عیسٰیؑ کی ولادت و نبوت کا تذکرہ کیا گیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے: حضرت مریمؑ کی والدہ محترمہ نے نذر مانی کے اے اللہ! میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کرتی ہوں۔ مگر جب بچہ پیدا ہوا تو وہ لڑکی (مریم) تھی، ان کی والدہ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ یہ تو بچی ہے میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے اور میں اسے آپ کی پناہ میں دیتی ہوں اور اس کی اولاد کو بھی مردود شیطان کے شر سے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نذر قبول کر لی اور اسے اچھی پرورش کے ساتھ بڑھایا جبکہ حضرت زکریا علیہ السلام نے اس بچی کی کفالت کا۔

فرشتوں نے حضرت مریمؑ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے چن لیا اور پاکیزگی بخشی ہے اور تجھے جہانوں کی عورتوں میں سے چنا ہے اس لیے تم اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور اس کے لیے رکوع اور سجدہ کرو۔ پھر فرشتوں نے حضرت مریمؑ کو خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ تجھے اپنے کلمہ کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام مسیح اور عیسیٰ بن مریم ہوگا، وہ دنیا و آخرت میں باوقار ہوگا، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں میں سے ہوگا، ماں کی گود میں اور پختہ عمر میں یکساں کلام کرے گا اور نیکوکاروں میں سے ہوگا۔ حضرت مریمؑ نے کہا کہ مجھے تو ابھی تک کسی مرد نے چھوا تک نہیں، میرا بیٹا کیسے پیدا ہوگا؟ فرشتوں نے کہا کہ اسی کیفیت میں ہوگا، اللہ تعالیٰ جب کسی کام کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اسے کتاب و حکمت اور توراۃ و انجیل کی تعلیم دے گا اور اسے بنی اسرائیل کی طرف رسول بنائے گا۔

حضرت عیسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نشانیاں لے کر آیا ہوں، میں مٹی سے پرندے کا مجسمہ بناتا ہوں اور اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اڑنے لگتا ہے، میں مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے تندرست بنا دیتا ہوں، میں مردے کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ کرتا ہوں، جو کھانا تم کھاتے ہو اور جو گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو میں اس کی تمہیں خبر دے سکتا ہوں، میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کی تصدیق کرنے والا ہوں، بعض چیزیں جو تم پر پہلے حرام کی گئی تھیں انہیں حلال کرنے آیا ہوں اور تمہارے رب کی طرف سے کھلی نشانی لایا ہوں۔ اس لیے تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور میری پیروی کرو، بے شک اللہ تعالیٰ ہی میرا اور تمہارا رب ہے، بس اسی کی عبادت کرو کیونکہ یہی صراط مستقیم ہے۔

جب حضرت عیسٰیؑ نے اپنی قوم کی طرف سے جھٹلائے جانے کا خطرہ محسوس کیا تو کہا کہ اللہ کی راہ میں میرے مددگار کون ہیں؟ ان کے حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مددگار ہیں ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے اللہ! ہم آپ کے اتارے ہوئے احکام پر ایمان لاتے ہیں اور ہم نے آپ کے رسول (حضرت عیسٰیؑ) کی پیروی اختیار کی ہے اس لیے ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں شمار فرما۔ جبکہ حضرت عیسٰیؑ کے منکروں نے تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ سب سے بہتر تدبیر کرنے والے ہیں۔

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰیؑ سے کہا کہ میں تجھے وصول کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں اور تجھے کافروں سے نجات دینے والا ہوں اور تیرے پیروکاروں کو قیامت تک تیرے دشمنوں پر غلبہ دینے والا ہوں۔

بے شک حضرت عیسٰیؓ کی مثال آدمؑ کی طرح ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مٹی سے بنایا اور پھر فرمایا کہ ہو جا تو وہ (ایک زندہ انسان) ہوگیا۔ یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے، بس ہرگز تم شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔

سورہ النساء کی آیت ۱۵۵ تا ۱۵۹ میں اللہ تعالیٰ نے یہود بنی اسرائیل کے دلوں پر کفر کی مہر لگا دینے کے اسباب بیان کرتے ہوئے ایک سبب یہ بھی ذکر کیا کہ انہوں نے حضرت عیسٰیؑ کا انکار کر دیا اور حضرت مریمؑ پر (حضرت عیسٰیؑ کی بغیر باپ ولادت کے حوالے سے) بہتان عظیم باندھ دیا اور یہ کہا کہ ہم نے مسیح عیسٰیؑ بن مریمؑ کو قتل کر دیا ہے۔ حالانکہ نہ انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ سولی پر لٹکایا بلکہ وہ شبہہ میں ڈال دیے گئے اور جس بات میں وہ اختلاف کرتے ہیں وہ شک کی بنیاد پر کرتے ہیں، ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی علم نہیں اور وہ صرف گمان کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ یقینی بات ہے کہ انہوں نے حضرت عیسٰیؑ کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور الہ تعالیٰ زبردست اور حکمت والا ہے۔ اور اہل کتاب میں کوئی بھی نہیں ہے مگر وہ سب حضرت عیسٰیؑ پر ان کی موت سے پہلے ایمان لائیں گے۔

سورہ النساء کی آیت ۱۷۲ میں ہے کہ حضرت عیسٰیؑ نے کبھی اس بات سے عار محسوس نہیں کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور نہ ہی اس بات سے اللہ تعالیٰ کے فرشتے عار محسوس کرتے ہیں۔ اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی بندگی سے عار محسوس کرتا ہے اور تکبر کرتا ہے اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔

سورہ المائدہ کی آیت ۱۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے کفر اختیار کیا جنہوں نے کہا کہ مسیح بن مریمؑ ہی خدا ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ اگر اللہ تعالیٰ حضرت عیسٰیؑ، ان کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو موت دے دیں تو اللہ تعالیٰ کے سامنے کس کا بس چل سکتا ہے؟

سورہ المائدہ کی آیت ۴۶ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ہم نے موسٰیؑ کے بعد ان کے نقش قدم پر عیسٰیؑ بن مریمؑ کو بھیجا، وہ اس سے پہلے کی کتاب توراۃ کی تصدیق کرنے والے تھے اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ توراۃ کی تصدیق کرتی تھی اور متقین کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔

سورہ المائدہ کی آیت ۷۲ تا ۷۵ میں ارشاد خداوندی ہے کہ ان لوگوں نے کفر اختیار کیا جنہوں نے کہا کہ حضرت عیسٰیؑ بن مریمؑ ہی خداوند ہیں۔ حالانکہ حضرت عیسٰیؑ نے فرمایا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔ اور بے شک جس نے اس کے ساتھ شرک کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔ اور ان لوگوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تین میں سے ایک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اور اگر وہ اس سے باز نہ آئے تو انہیں دردناک عذاب پہنچے گا۔ حضرت عیسٰیؑ صرف اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے اور ان کی والدہ (حضرت مریمؑ) سچی خاتون تھیں اور وہ دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے۔

سورہ المائدہ کی آیت نمبر ۷۸ تا ۸۰ میں ہے کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ کافر ہوئے ان پر حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان پر (ان کے ذریعے) لعنت کی گئی اس لیے کہ وہ نافرمانی میں حد سے بڑھ گئے تھے، وہ ایک دوسرے کو برائی سے نہیں روکتے تھے جس کا وہ ارتکاب کرتے تھے اور کافروں کے ساتھ دوستی کیا کرتے تھے۔

سورہ المائدہ کی آیت ۱۰۹ تا ۱۱۸ میں اللہ تعالیٰ حضرت عیسٰیؑ کو اپنی نعمتیں یاد دلاتے ہیں کہ میری ان نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیں، جب روح القدس (جبرائیل علیہ السلام) کے ساتھ تمہاری مدد کی، جب تم ماں کی گود میں او رپختہ عمر میں یکساں کلام کرتے تھے، جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور توراۃ و انجیل کی تعلیم دی، جب تم مٹی سے پرندوں کے مجسمے بنا کر ان میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتے تھے، تم اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے تندرست بنا دیا کرتے تھے، جب تم قبروں سے مردوں کو زندہ اٹھا لیا کرتے تھے، جب میں نے بنی اسرائیل کو تمہیں نقصان پہنچانے سے روک دیا، جب تم ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تھے اور انہوں نے انہیں جھٹلاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تو کھلا جادو ہے، جب میں نے حواریوں سے کہا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ تو وہ ایمان لے آئے، جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسٰیؑ بن مریم کیا آپ کا رب اس بات کی طاقت رکھتا ہے کہ ہم پر آسمان سے (تیار کھانے کا) دستر خوان اتارے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔ حواریوں نے کہا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم (آسمانی کھانا) کھائیں اور ہمارے دلوں کو اطمینان حاصل ہو اور ہم جان لیں کہ آپ نے ہم سے سچ کہا ہے اور ہم اس پر گواہ ہو جائیں۔ حضرت عیسٰیؑ نے دعا مانگی کہ اے اللہ! ہم پر آسمان سے دستر خوان اتار دے، وہ ہمارے لیے عید کا دن ہوگا اور ہمارے بعد والوں کے لیے بھی عید ہوگی اور تیری قدرت کی نشانی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر دستر خوان اتارنے والا ہوں لیکن اس کے بعد جس نے کفر کیا اسے ایسا عذاب دوں گا کہ سارے جہانوں میں ایسا عذاب کسی اور کو نہیں دوں گا۔

سورہ المائدہ کی انہی آیات کے مطابق یہ نعمتیں یاد دلا کر اللہ تعالیٰ حضرت عیسٰیؑ سے قیامت کے دن پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ تعالیٰ کے سوا خدا بنا لینا؟ حضرت عیسٰیؑ جواب دیں گے کہ اے اللہ تیری ذات ان باتوں سے پاک ہے، مجھے ایسی بات کہنے کا کوئی حق ہی نہیں تھا اور اگر یہ بات میں نے کہی ہوتی تو آپ کے علم میں ہوتی، میں نے تو انہیں وہی کہا تھا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے۔

سورہ التوبہ آیت ۲۹ و ۳۰ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ یہود نے کہا کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ یہ ان کی خود ساختہ باتیں ہیں اور وہ پہلے کافروں کی طرح کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو اللہ تعالیٰ کے سوا رب بنا رکھا ہے اور عیسیٰ بن مریمؑ کو بھی خدا بنا لیا ہے۔ حالانکہ انہیں اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں جو ایک ہی خدا ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے جو وہ شرک کرتے ہیں۔

سورہ مریم آیت ۱۶ تا ۴۰ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسٰیؑ کی ولادت کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے۔ جب حضرت مریمؑ اپنے گھر والوں سے مشرقی جگہ میں الگ ہو کر اوٹ میں ہوگئیں تو ہم نے روح القدس کو بھیجا جس نے ایک کامل انسان کی شکل اختیار کر لی۔ حضرت مریمؑ نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ میں تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں اگر تو خدا خوفی رکھنے والا ہے۔ اس نے کہا کہ میں تیرے رب کا بھیجا ہوا فرشتہ ہوں تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا عطا کروں۔ حضرت مریمؑ نے کہا کہ میرا لڑکا کہاں سے ہوگا جبکہ مجھے کسی انسان نے چھوا تک نہیں اور میں بدکار عورت بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا کہ اسی کیفیت میں ہوگا، تیرا رب کہتا ہے کہ یہ بات میرے لیے آسان ہے اور میں اس لڑکے کو اپنی قدرت کی نشانی بناؤں گا اور وہ رحمت ہوگا اور یہ بات تو طے شدہ ہے۔ پس وہ حاملہ ہوئی اور اسے لے کر الگ دور جگہ میں چلی گئی، جب اسے درد زہ ایک کھجور کے تنے کے پاس لے گیا تو اس نے (بدنامی کے خوف سے) کہا کہ اے کاش! میں اس سے قبل مر چکی ہوتی اور بھولی بسری ہو جاتی۔ فرشتے نے نیچے سے آواز دی کہ گھبراؤ نہیں تمہارے رب نے تمہارے قدموں میں پانی کا چشمہ نکال دیا ہے اور کھجور کے تنے کو حرکت دو تم پر تروتازہ کھجوریں گریں گی، پس کھاؤ ، پیو اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرو۔ اور اگر کسی انسان کو دیکھو تو اسے بتاؤ کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے لیے کلام نہ کرنے کا روزہ رکھا ہوا ہے اس لیے آج کا دن میں کسی سے کلام نہیں کروں گی۔ پس وہ اپنے بچے کو لے کر قوم کے پاس آئی، وہ اسے اٹھائے ہوئے تھی، لوگوں نے کہا کہ اے مریمؑ! تم تو یہ بہت بری چیز لے آئی ہو، نہ تو تمہارا باپ برا شخص تھا اور نہ ہی تمہاری ماں بدکار تھی۔

حضرت مریمؑ نے بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اسی سے پوچھو۔ انہوں نے کہا کہ گود کے بچے سے ہم کیسے کلام کریں؟ اس پر حضرت عیسٰیؑ (ماں کی گود میں) بول پڑے کہ بے شک میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں، مجھے اس نے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے، مجھے برکت والا بنایا ہے، میں جہاں بھی ہوں مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے، مجھے اپنی ماں کے لیے فرمانبردار بنایا ہے اور تندخو اور بدنصیب نہیں بنایا، مجھ پر سلامتی ہو جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں گا اور جس دن دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔

یہ تفصیل بیان کر کے اللہ تعالیٰ ان آیات میں یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ عیسیٰ بن مریمؑ یہی ہیں، یہی حق ہے جس کے بارے میں یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے، اس کی ذات پاک ہے، وہ جب کسی کام کا فیصلہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتا ہے (یعنی اس کو کسی مددگار کی ضرورت نہیں)۔

سورہ المومنون آیت ۵۰ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عیسٰیؑ اور ان کی والدہ محترمہ کو اپنی خاص قدرت کی نشانی بنایا اور ہم نے ان دونوں کو ایک بلند ٹیلے پر پناہ دی جو قرارگاہ اور چشمے والی تھی۔

سورہ الزخرف آیت ۶۰ میں فرمایا ہے کہ حضرت عیسٰیؑ قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں، اس بات میں ہرگز شک میں نہ پڑنا اور میری پیروی کرنا یہی صراط مستقیم ہے۔

سورہ الصف آیت ۶ میں ہے کہ جب حضرت عیسٰیؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، مجھ سے پہلے کتاب توراۃ ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور میرے بعد آنے والے نبی کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمدؐ ہوگا۔

یہ ایک خلاصہ ہے جو قران کریم کے بیسیوں مقامات میں حضرت عیسٰیؑ اور حضرت مریمؑ کے تذکروں میں سے ہم نے پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان سینکڑوں ارشادات میں سے بھی کچھ کا تذکرہ کیا جائے جو پیغمبر آخر الزمانؐ نے اس مقدس ماں اور اس کے مقدس بیٹے کے بارے میں فرمائے ہیں۔

بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ البتہ ضرور تم میں ابن مریمؑ نازل ہوں گے حاکم اور عادل بن کر۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، جزیہ کو ختم کر دیں گے اور مال کو اتنا عام کریں گے کہ کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا اور یہ اس وقت ہوگا جب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک سجدہ دنیا اور اس کی ساری دولت سے بہتر ہوگا۔

مسلم شریف میں حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ میری امت میں سے ایک گروہ حق پر لڑتا رہے گا اور قیامت تک وہ گروہ غالب رہے گا (کہ اسے حق سے کوئی ہٹا نہیں سکے گا)۔ پھر حضرت عیسٰیؑ نازل ہوں گے، مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا کہ حضرت تشریف لائیے اور ہمیں نماز پڑھا دیجئے، وہ فرمائیں گے کہ تم آپس میں ہی ایک دوسرے کے امام ہو، یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت کا اعزاز ہے۔

مسلم شریف میں حضرت نواس بن سمعانؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اکرمؐ نے قیامت سے قبل امت مسلمہ کی زبوں حالی کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی دوران اللہ تعالیٰ حضرت مسیح بن مریمؑ کو بھیج دے گا اور لوگ دمشق کے مشرقی جانب عیسٰیؑ کو موجود پائیں گے۔

ابو داؤو طیاسی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ حضرت عیسٰیؑ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے، مال کو پانی کی طرح بہائیں گے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ان کے دور میں اسلام کے سوا باقی سارے دینوں کو مٹا دیں گے۔ جھوٹے مسیح دجال کو ہلاک کر دیں گے، زمین میں امن قائم ہو جائے گا حتیٰ کہ شیر اونٹ کے ساتھ، چیتا گائے کے ساتھ اور بھیڑیا بکریوں کے ساتھ پانی پیے گا اور بچے سانپوں کے ساتھ کھیلیں گے اور کوئی کسی کو نہیں کاٹے گا۔ حضرت عیسٰیؑ زمین پر چالیس سال تک رہیں گے پھر ان کی وفات ہوگی، مسلمان ان کا جنازہ پڑھیں گے اور انہیں دفن کریں گے۔

مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے حضرت عیسٰیؑ فج الروحاء کے مقام سے (مدینہ منورہ سے چھ میل دور ایک جگہ کا نام ہے) حج یا عمرے کا یا دونوں کا احرام باندھیں گے۔ جبکہ مستدرک حاکم کی روایت میں حضرت ابوہریرہؓ یہ فرماتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ پھر حضرت عیسٰیؑ میری قبر پر آکر مجھے سلام کہیں گے اور میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے فتح الباری میں روایت نقل کی ہے کہ جناب رسول اللہؐ نے قبیلہ جزام کے لوگوں سے، جو قبیلہ ازد کی شاخ ہے، فرمایا کہ حضرت عیسٰیؑ تمہارے خاندان کی ایک خاتون سے شادی کریں گے اور شادی کے بعد انیس سال زندہ رہیں گے۔ جبکہ علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے اپنی کتاب ’’التصریح‘‘ میں علامہ سفارینیؒ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس خاتون سے حضرت عیسٰیؑ کے دو بیٹے ہوں گے، وہ ایک کا نام موسیٰ اور دوسرے کا نام محمد رکھیں گے۔

امام نور الدین الہیشمیؒ مسند بزار کے حوالے سے راویوں کی توثیق کے ساتھ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی کریمؐ نے فرمایا کہ حضرت عیسٰیؑ آسمان سے نازل ہوں گے اور لوگوں کی امامت کریں گے۔ محدثینؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسٰیؑ پہلی نماز اس امت کے امام کے پیچھے پڑھیں گے جبکہ اس کے بعد وہ نمازوں کی امامت بھی فرمائیں گے اور امت کی قیادت بھی کریں گے۔

بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے فرمایا کہ میں دنیا اور آخرت دونوں جگہ حضرت عیسٰیؑ سے زیادہ قریب ہوں۔ اس لیے ہم مسلمانوں کا تعلق اور عقیدت بھی حضرت عیسٰیؑ کے ساتھ باقی سب سے زیادہ ہے اور ان کا ادب و احترام ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ البتہ ہمارے نزدیک عقیدت، ادب اور احترام کا حقیقی اظہار کوئی دن منا لینے سے زیادہ ان کی اطاعت اور پیروی میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دے، آمین یا رب العالمین۔


(روزنامہ پاکستان، لاہور ۴ و ۵ جنوری ۲۰۰۸ء)


کرسمس تقریبات میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ

 ازقلم : حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب

کرسمس مسیحی کمیونٹی کا مذہبی تہوار ہے جسے سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ ولادت کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس سال بھی دنیا بھر میں یہ تہوار پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ہے۔ اس موقع پر گرجا گھروں میں دعائیہ کلمات ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہے، تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور اس دن کو پوری دنیا کی مسیحی کمیونٹی میں سال کے سب سے زیادہ اہم دن   کی حیثیت حاصل ہوتی ہے


کچھ عرصہ سے کرسمس کی تقریبات میں مسلم راہنماؤں کی شرکت بھی نظر آ رہی ہے جسے مسیحی حضرات کے ساتھ دوستی اور رواداری کے رنگ میں دیکھا جاتا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں اسے مسیحی اقلیت کی خوشی میں شرکت سمجھ کر اسے سراہا بھی جاتا ہے۔ لیکن جوں جوں اس کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے مذہبی حلقوں میں یہ بات اسی طرح محسوس بھی کی جانے لگی ہے اور مسیحیوں کے مذہبی تہوار میں سرکردہ مسلم راہنماؤں کی اس طرز اور اس درجے کی شرکت پر مذہبی حلقوں کا اعتراض نمایاں طور پر سامنے آرہا ہے۔ چنانچہ اس سال کرسمس سے تین روز قبل ۲۲ دسمبر ۲۰۱۱ء کو مولانا عبد الرؤف فاروقی نے، جو جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ کامونکی کے سربراہ ہیں، جامع مسجد خضراء سمن آباد لاہور میں اس سلسلہ میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس کے مہمان خصوصی ممتاز عالم دین حضرت مولانا حمید اللہ جان صاحب تھے اور اس سے مولانا عبد الرؤف فاروقی اور جناب حامد کمال الدین کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر کی جانے والی گزارشات کا خلاصہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں:

بعدالحمد والصلوٰۃ۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی ہم سب کی طرف سے مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ مسیحیت کے محاذ پر مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں اور ملک بھر کے علماء کرام اور دینی حلقوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ کسی زمانے میں مسیحی مشنریوں کی سرگرمیوں کے تعاقب کے لیے ’’اسلامی مشن‘‘ کے عنوان سے کام ہوا کرتا تھا اب ہر طرف خاموشی نظر آرہی ہے، اس ماحول میں مولانا فاروقی کی یہ محنت قابل ستائش ہے اور ہم سب کو ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

آج کی یہ محفل اس حوالے سے ہے کہ کرسمس کی تقریبات میں مسلمان راہنماؤں کی روز افزوں شرکت کے بارے میں جائزہ لیا جائے اور اس معاملے میں مسلمانوں کی شرعی راہنمائی کا اہتمام کیا جائے۔ حضرت مولانا حمید اللہ جان صاحب تشریف فرما ہیں وہ میرے بعد آپ حضرات سے مخاطب ہوں گے، میں ان سے پہلے مسیحی حضرات کے ساتھ مسلمانوں کے بعض معاملات کے بارے میں مختلف دائروں کا ذکر کرنا چاہوں گا تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ہم جس مسئلہ کے لیے آج جمع ہیں وہ کس سطح اور کس دائرے کا مسئلہ ہے تاکہ ہم اس کے مطابق اپنا موقف اور طرز عمل طے کر سکیں۔

1. مسیحی حضرات کے ساتھ ہمارے معاملات کا ایک دائرہ مذہبی اور علمی ہے کہ عقائد کے بارے میں دلائل اور براہین کے ساتھ بات کی جائے، جسے ہم مباحثہ اور مناظرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ شروع سے چلا آرہا ہے اور مسلسل جاری رہے گا۔

2. دوسرا دائرہ ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘کے عنوان سے ہے جس کا آج کے دور میں بڑا مقصد یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی، رواداری اور تحمل کی فضا پیدا کی جائے۔ یہ بات بہت اچھی اور ضروری ہے لیکن جہاں بات عقائد کی آجاتی ہے اور اصولوں میں لچک پیدا کرنے کا تقاضا ہوتا ہے وہاں ہمارے لیے بات مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ عقائد اور بنیادی احکام میں ردوبدل یا لچک پیدا کرنا نہ ہمارے بس میں ہے اور نہ ہی ہم اس کے لیے کسی بھی درجہ میں تیار ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ اسلام کی بات کرو لیکن دوسرے مذاہب کی نفی نہ کرو اور ان کے خلاف کچھ نہ کہو۔ یہ پیشکش جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قریش مکہ کے سرداروں نے کی تھی کہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات اور قدرت کی بات کریں مگر ہمارے بتوں اور معبودوں کی نفی نہ کریں۔ اس بات کو جناب رسول اللہؐ نے رد کر دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں دو ٹوک فرما دیا تھا کہ ’’ودوا لو تدہن فیدہنون فلا تطع المکذبین‘‘ مشرکین یہ چاہتے ہیں کہ کچھ آپ لچک پیدا کریں تاکہ وہ بھی لچک پیدا کر سکیں، لیکن آپ ان جھٹلانے والوں کی بات نہ مانیں۔

اصول و عقائد اور احکام شرعیہ کے دائرے میں رہتے ہوئے باہمی رواداری اور خیرسگالی میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، لیکن رواداری کے عنوان سے مذاہب کے گڈمڈ کر دینے کی بات قابل قبول نہیں ہے۔ اسی طرح نجران کے مسیحی علماء کے ساتھ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذاکرات کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو اعلان کرایا وہ یہ تھا کہ ’’آپ ان سے کہہ دیں کہ آؤ ان باتوں کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو باتیں قرآن کریم نے ’’قدر مشترک‘‘ کے طور پر بتائی ہیں: ایک توحید اور دوسری انسان پر انسان کی خدائی کی نفی۔ ان کے بارے میں قرآن کریم نے کہا ہے کہ یہ دو باتیں آسمانی مذاہب میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں، ان پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ یہ اعلان کرا کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اہل کتاب اس بات کو قبول نہ کریں تو آپ ان کو گواہ بنا کر کہہ دیں کہ ہم تو اسی کی گواہی دیتے ہیں اور اسی پر قائم ہیں۔

3. ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے ان علمی و فکری دائروں سے ہٹ کر ایک دائرہ ثقافت اور کلچر کا بھی ہے کہ معاشرتی طور پر اور ثقافتی روایات کے حوالے سے مسلمانوں کو مسیحیوں اور دیگر غیر مسلموں کے ساتھ اس قدر خلط ملط کر دیا جائے کہ درمیان میں کوئی فرق دکھائی نہ دے۔ میرے نزدیک آج کل اسی دائرے میں سب سے زیادہ محنت ہو رہی ہے اور ایک عرصہ سے مغرب کی یہ تکنیک چلی آرہی ہے کہ سوشل سائنسز، عمرانیات اور کلچر و ثقافت کے نفسیاتی حربوں کے ساتھ مسلمانوں کے مذہبی امتیازات کو ختم کر دیا جائے یا اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ غیر مؤثر ہو کر رہ جائیں۔ اس لیے اس طریق واردات کو سمجھنے اور اس کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ مثلاً ایک ارشاد گرامی میں فرمایا کہ ’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘ جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں شمار ہوگا۔ یہ مشابہت وضع قطع، طرز زندگی، لباس اور دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ مذہبی معاملات میں زیادہ نقصان دہ ہے۔ اسی لیے فقہاء کرام نے غیر مسلموں کے مذہبی شعائر اور روایات کے ساتھ میل جول کی اجازت نہیں دی اور اسے تشبہ قرار دیا ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے مسئلہ میں یہ بات پوری طرح واضح فرما دی تھی۔ جیسا کہ احادیث میں ہے کہ مدینہ منورہ میں جماعت کے ساتھ پنج وقتہ نمازوں کا سلسلہ شروع ہونے پر جب نماز کی جماعت کے لیے لوگوں کو بلانے کے طریقوں پر باہمی مشاورت ہوئی تو ایک تجویز یہ تھی کہ ناقوس بجایا جائے۔ آنحضرتؒ نے یہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا کہ یہ یہودیوں کا طریقہ ہے، گھنٹا بجانے کی تجویز یہ کہہ کر رد فرما دی کہ یہ مسیحیوں کا طریقہ ہے، جبکہ آگ جلانے کی تجویز کو اس وجہ سے قبول نہیں فرمایا کہ یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاشرتی اور مذہبی امتیازات قائم رکھنے کو ضروری قرار دیا ہے اور آپؐ نے خود بھی اس کا اہتمام فرمایا ہے۔

اس لیے کرسمس کی یہ حیثیت کہ وہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مبینہ طور پر ’’یوم ولادت‘‘ سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں کی عید الفطر کی طرح ایک مذہبی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، اس کے ساتھ اسی حوالے سے معاملہ ہونا چاہیے، اور مسلمانوں کا مذہبی اور معاشرتی امتیاز قائم رکھنے کے لیے حد سے زیادہ میل جول سے بہرحال گریز کرنا چاہیے۔


(روزنامہ اسلام، لاہور ۲۸ دسمبر ۲۰۱۱ء)





دہشت گردی کے بعد رجعت پسندی کے خلاف جنگ

 ازقلم : حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب

ایک مقتدر شخصیت کا یہ بیان پڑھ کر ذہن میں ایک نیا مخمصہ ابھر آیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کے بعد اب رجعت پسندی سے جنگ ہوگی۔ خدا جانے ان کے سامنے رجعت پسندی کا کونسا نقشہ ہے مگر یہ بات بہرحال فکر و نظر کو متوجہ کرنے لگی ہے کہ دہشت گردی کا تو ابھی تک کوئی واضح مفہوم طے نہیں پا سکا اور عالمی، علاقائی یا قومی دائروں میں یہ فیصلہ بہرحال ارباب حل و عقد کے ہاتھ میں ہی ہے کہ وہ جسے چاہیں دہشت گرد قرار دے کر قابل گردن زدنی ٹھہرا دیں۔ دہشت گردی کے خلاف جب عالمی سطح پر بگل بجایا گیا تو یہ تقاضہ سامنے آیا تھا کہ اس کی تعریف طے کر لی جائے تاکہ دہشت گردی اور مظلوم اقوام کی جنگِ آزادی کے درمیان کوئی فرق واضح ہو سکے اور اس کے ساتھ ہی اسلامی جہاد اور دہشت گردی کے درمیان حد فاصل متعین ہو جائے۔ مگر اس کا تکلف روا نہ رکھتے ہوئے طبل جنگ بجا دیا گیا جس کے نتیجے میں دہشت گردی، جہاد اور جنگ آزادی سب کچھ گڈمڈ ہو کر رہ گیا اور اب شاید ’’رجعت پسندی‘‘ کی اصطلاح کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔

رجعت پسندی کی نفی جب مغرب اور اس کے ہمنوا حلقے استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ:

 * ریاست کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہ رہے۔

* دنیا کی تمام تہذیبیں اور ثقافتیں اپنے ماضی اور روایات سے دستبردار ہو کر مغربی فلسفہ و ثقافت کے سامنے سرنڈر ہو جائیں۔

* عالمگیریت کے نام پر مغرب کے مسلط کردہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی ماحول و نظام کو بہرحال قبول کر لیا جائے۔

* خدا، رسول اور آسمانی تعلیمات کو عبادت خانوں کی چار دیواری میں محدود کر دیا جائے اور اجتماعی معاملات میں ان کا کوئی حوالہ نہ دیا جائے۔
دوسرے لفظوں میں ماضی کی طرف لوٹنا اور آسمانی تعلیمات کو سیاسی، معاشرتی، معاشی اور قانونی معاملات کو راہنما قرار دینا آج کے معروف فکر و فلسفہ کی رو سے رجعت پسندی کہلاتا ہے۔ البتہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عمومی ماحول میں اس مبینہ رجعت پسندی سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ قیام پاکستان کے مقصد کے حوالہ سے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم اور ان کے رفقاء کی واضح تصریحات تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ و موجود ہیں کہ وہ اس نئی ریاست کو اسلامی تعلیمات اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے ازسرنو معاشرتی کردار کے لیے تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں، جو ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا معروف مفہوم میں رجعت پسندی ہی کہلائے گا۔ اور ایسا کرنا اس لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور خود اس بات کا داعی اور ضامن ہے کہ:
* اس ریاست میں حاکمیت اعلٰی اللہ تعالٰی کی تسلیم کی گئی ہے
* قرآن و سنت کو دستور و قانون کی راہنمائی اور تشکیل میں سرچشمہ کی حیثیت حاصل ہے۔
* ریاست، آسمانی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور فروغ کی پابند ہے۔
* اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ اس ریاست کا بنیادی ہدف ہے
پھر ان دستوری صراحتوں کے ساتھ ساتھ کم و بیش تمام قومی راہنما اور مقتدر شخصیات گزشتہ سات عشروں سے تسلسل کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور خلفاء راشدین کی مثالی حکومتوں کو راہنما اور آئیڈیل قرار دیتے چلے آرہے ہیں، حتٰی کہ موجودہ حکومت نے تو اپنے آئیڈیل نظامِ حکومت کے لیے ٹائٹل ہی ’’ریاست مدینہ‘‘ کا اختیار کیا ہے جس کا کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال قبل کے ماضی کی طرف رجوع اور واپسی کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس تناظر میں ’’رجعت پسندی‘‘ کا کوئی طعنہ سن کر یوں لگتا ہے جیسے ہم خود اپنے خلاف لڑنے کی باتیں کر رہے ہیں اور اپنی نظریاتی، اعتقادی اور تہذیبی بنیادوں کو ہی اکھاڑ دینے کے درپے ہیں۔
رجعت پسندی سے مراد اگر تنگ نظری، فرقہ پرستی ، شخصی یا طبقاتی مفادات کی اسیری، اور ملکی و ملی تقاضوں سے انحراف ہے تو اس کے مذموم ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے اور اس کے خلاف جنگ میں کوئی محب وطن شہری اور سلیم الفطرت مسلمان پیچھے نہیں رہے گا۔ مگر رجعت پسندی کی اصطلاح کا جو مفہوم و مطلب آج کی بالادست قوتوں کا طے کردہ ہے اور جسے امت مسلمہ سے بہرحال قبول کروانے کے لیے تخویف و تحریص کے سارے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، اسے ہدف قرار دے کر کیا جانے والا کوئی بھی اعلان جنگ خود اپنے خلاف ہی سمجھا جائے گا۔ ہم قومی سوچ اور ملی تقاضوں کو دیمک کی طرح چاٹ لینے والی ’’رجعت پسندی‘‘ کے خلاف جنگ کے حق میں ہیں اور اسے قومی وحدت و ملکی استحکام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، مگر اس کا مفہوم اور حدود اربعہ طے ہونا چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرح یہ تجربہ پھر نہیں دہرایا جانا چاہیے کہ ڈیڑھ عشرے سے زیادہ عرصہ تک جنگ لڑنے اور بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دینے کے بعد بالآخر ہمارے وزیراعظم کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ’’ہم آئندہ غیروں کی جنگ نہیں لڑیں گے۔‘‘
 اس لیے گزارش ہے کہ رجعت پسندی کے خلاف مجوزہ جنگ اگر قومی تقاضوں اور ملی مقاصد کے لیے ہے تو بسم اللہ، پوری قوم حاضر ہے، مگر یہ جدوجہد قیام پاکستان کے نظریاتی مقاصد کی تکمیل اور دستور پاکستان پر مخلصانہ عملدرآمد کے لیے ہوگی تو بات آگے بڑھے گی، اور اسے ’’غیروں کی جنگ‘‘ کے تاثر سے بچانا ہوگا جبکہ ہمارے خیال میں اس ملک کے عوام کو کافی حد تک اب اس بات کا تجربہ اور ادراک ہو گیا ہے کہ کونسی جنگ ہماری ملی ضروریات کے لیے ہے اور کونسی جنگ ایسی ہو سکتی ہے جس کے بعد ہمیں پھر سے یہ نہ کہنا پڑ جائے کہ آئندہ ہم غیروں کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر دستور پاکستان کو قوم کا حقیقی بیانیہ سمجھ لیا جائے اور اسے آزادی اور اعتماد کے ماحول میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے تو ہمیں نہ کسی نئے بیانیے کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی کوئی جنگ لڑنا پڑے گی، مگر اس کے لیے شرط ہے کہ دستور کو فریزر سے نکال کر اپنا کام کرنے دیا جائے اور تمام مقتدر ادارے دستور کی حاکمیت اور بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

 (روزنامہ اوصاف، 27 دسمبر 2018ء)