حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ

از قلم: حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی زیارت و ملاقات سب سے پہلے 1984ء میں ہوئی تھی جب وہ رابطہ عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے اور راقم الحروف بھی عمرہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں حرم پاک میں تھا۔ حضرت مولانا ندویؒ اور حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ محترم سعدی صاحب مرحوم کے مکان میں ٹھہرے ہوئے تھے جبکہ میں اپنے خالو محترم مفتی محمد اویس خان ایوبیؒ کا مہمان تھا جو اُن دنوں جامعہ ام القریٰ میں زیر تعلیم تھے اور اب وہ میر پور آزاد کشمیر کے ضلع مفتی ہیں۔
مولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا علی میاںؒ (مولانا ندویؒ ) کو زندگی میں پہلی بار وہاں دیکھا بلکہ مولانا ندویؒ کے ساتھ بیت اللہ شریف کا طواف کرنے کا موقع بھی ملا اور ان کے بڑھاپے اور ضعف کے پیش نظر انہیں بازوؤں کے حصار میں رکھتے ہوئے ہجوم سے بچانے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اور پھر سعدی صاحب مرحوم کے مکان پر دونوں بزرگوں کے ساتھ ملاقات و گفتگو کی سعادت حاصل ہوئی۔
اس دور میں پاکستان کی صورت حال یہ تھی کہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کا اقتدار عروج پر تھا اور جمعیۃ علماء اسلام MRD میں شرکت کے سوال پر دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ اپنا تعارف جمعیۃ علماء اسلام کے حوالہ سے کروایا جس سے مولانا ندویؒ ذہنی تحفظات کا شکار ہوگئے اور پھر پاکستان کے حوالہ سے بہت سے امور کا تذکرہ ہونے کے باوجود ان کی زبان سے کوئی تبصرہ سننے کی خواہش پوری نہ ہو سکی۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی کتابوں اور تحریرات سے تعارف بہت پرانا تھا اور طالب علمی کے دور میں ہی ان کی بہت سی تحریروں کا مطالعہ کر چکا تھا۔ ایک دور ایسا بھی گزرا کہ وہ عرب نیشنلزم کے سخت ترین ناقدوں میں سے تھے اور عرب نیشنلزم اور ترک نیشنلزم کی تحریکوں کو خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کا باعث قرار دیتے ہوئے نیشنلزم کے علمبردار بالخصوص مصر کے جمال عبد الناصر مرحوم اور ترکی کے مصطفی کمال اتاترک کو تنقید کا بطور خاص نشانہ بناتے تھے۔ جبکہ میرا تعلق اس طبقہ سے تھا جو نہر سویز کی جنگ اور برطانوی استعمار کے خلاف معرکہ آرائی کی وجہ سے جمال عبد الناصر مرحوم کا مداح تھا اور ان کی فکری تحریک کو عالمی استعمار سے عربوں کی آزادی کا ذریعہ تصور کرتا تھا۔ مگر اس فکری اختلاف کے باوجود مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے ساتھ عقیدت اور ان کی تحریروں کی چاشنی سے لطف اندوز ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔
مغربی ثقافت اور جدید کلچر کی نقاب کشائی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تعارف کے حوالہ سے ان کی تحریریں میرے لیے خصوصی دلچسپی کا باعث تھیں۔ اور کئی جلدوں پر محیط ان کی ضخیم تصنیف ’’کاروان دعوت و عزیمت‘‘ نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا جس میں انہوں نے امت مسلمہ کے ان ارباب عزیمت و استقامت کی جدوجہد سے نئی نسل کو متعارف کرایا ہے جو ہر دور میں ارباب اقتدار کی ناراضگی اور غیظ و غضب کی پروا کیے بغیر حق اور اہل حق کی نمائندگی کرتے رہے ہیں، اور حق گوئی کی پاداش میں انہیں بے پناہ مصائب اور مشکلات کا شکار ہونا پڑا۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ بھارت کے معروف علمی ادارہ ’’ندوۃ العلماء لکھنو‘‘ کے سربراہ تھے۔ اور ندوہ صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک علمی و فکری تحریک کا نام ہے جس نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر برطانوی استعمار کے تسلط کے بعد ملت اسلامیہ کو بیدار رکھنے اور اس کے دینی و ثقافتی تشخص کی حفاظت کے لیے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اور اس حوالہ سے ہماری ملی تاریخ میں علی گڑھ یونیورسٹی اور دارالعلوم دیوبند کے ساتھ جو تیسرا نام ناقابل فراموش حصہ بن چکا ہے وہ ندوۃ العلماء لکھنو ہے جس کی بنیاد وقت کے ایک باخدا شخص مولانا سید محمد علی مونگیریؒ نے رکھی جبکہ مولانا شبلی نعمانیؒ اور مولانا سید سلیمان ندویؒ جیسی عبقری شخصیتوں نے اسے پروان چڑھایا۔
ندوہ نے علی گڑھ اور دیوبند کی دو انتہاؤں کے درمیان توازن اور جامعیت کی ایک نئی راہ اپنائی اور اسلامی تاریخ کو ثقاہت و استناد کے ساتھ اردو کے قالب میں ڈھال کر نئی نسل کا رشتہ اپنے شاندار ماضی کے ساتھ استوار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے علامہ سید سلیمان ندویؒ کے پاکستان چلے آنے کے بعد ندوہ کی سیادت سنبھالی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس فکر کا دائرہ برصغیر سے نکل کر پورے عالم اسلام تک پھیلتا چلا گیا۔ اردو تو مولانا ندویؒ کی گھر کی زبان تھی مگر عربی کو بھی ان سے کبھی اجنبیت کی شکایت نہ ہوئی۔ وہ عربی ایسی قدرت اور روانی کے ساتھ بولتے اور لکھتے تھے کہ خود عربوں کو اس پر حیرت ہوتی تھی۔ میں نے بعض عرب دانشوروں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کا خطاب اس لیے سنا کرتے تھے کہ ان کی زبان کی چاشنی اور سلاست و فصاحت کا حظ اٹھا سکیں۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ صرف ندوۃ العلماء کے سربراہ اور نمائندہ نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق جہاد بالاکوٹ کے عظیم جرنیل سید احمد شہیدؒ کے خاندان سے بھی تھا۔
گزشتہ سال دل میں ایک جذبہ ابھرا کہ مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ سے بیعت کی درخواست کی جائے اور ان سے ان کی سند کے ساتھ روایت حدیث کی اجازت حاصل کی جائے۔ میرا بیعت کا تعلق شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے فرزند و جانشین حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ سے تھا جنہوں نے زندگی بھر شفقت و اعتماد سے نوازا۔ ان کی وفات کے بعد حضرت لاہوریؒ کے خلفاء میں سے مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے ساتھ فکری ہم آہنگی اور طبعی مناسبت سب سے زیادہ تھی اس لیے ان سے یہ تعلق قائم کرنے کا ارادہ بن گیا۔ مگر دو تین برس سے وہ علالت کی وجہ سے لندن تشریف نہ لے جا سکے جبکہ ایک سال قبل لاہور تشریف لائے اور ملاقات بھی ہوئی مگر رش کی وجہ سے عرض مدعا نہ کر سکا۔ چنانچہ عریضہ لکھ کر دونوں امور کی درخواست کی جس کے جواب میں ابھی چند ماہ قبل ان کا گرامی نامہ گوجرانوالہ میں موصول ہوا جس میں انہوں نے درخواست بیعت قبول کرتے ہوئے بیعت کے دائرہ میں شامل کرنے کے علاوہ اپنی اسناد کے ساتھ حدیث نبویؐ علیٰ صاحبھا التحیۃ والسلام کی روایت کی اجازت بھی مرحمت فرما دی۔
اس طرح حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے ساتھ عقیدت و محبت اور فکری استفادہ کے تعلق کے ساتھ تلمذ و ارادت کا شرف بھی شامل ہوگیا۔ البتہ اس سے اگلا مرحلہ مقدر میں نہیں تھا اور میں ابھی اس پروگرام کا تانا بانا بن رہا تھا کہ کسی بہانے بھارت کا ویزا ملے تو شیخ و استاذ کی حیثیت سے حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی ایک بار پھر زیارت کی سعادت نصیب ہو جائے۔ مگر بیسویں صدی کے آخری روز برطانیہ کے شہر برنلی کی جامع مسجد فاروق اعظم میں ایک روزہ قیام کے دوران حضرت مولانا علی میاںؒ کی سرپرستی میں چلنے والے جامعۃ الہدیٰ نوٹنگھم کے پرنسپل مولانا رضاء الحق سیاکھوی نے فون پر یہ جانکاہ خبر دی کہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ آج صبح رائے بریلی انڈیا میں زندگی کا سفر مکمل کر کے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو چکے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
دعا ہے کہ اللہ رب العزت ان کی حسنات کو قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر فرمائیں، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، اور ان کے علم و فکر کے گلشن کو تا قیامت آباد رکھیں، آمین یا رب العالمین۔
(روزنامہ اوصاف، ۱۴ جنوری ۲۰۰۰ء)

Share To:

Unknown

Post A Comment:

0 comments so far,add yours