شکریہ مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ!
ازقلم: مولانا زاہدالراشدی
گزشتہ دنوں افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کے اعلان پر ریاستہائے متحدہ امریکہ کے صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایک کالم میں ہم نے شکریہ ادا کیا تو بعض دوستوں نے اس پر الجھن کا اظہار کیا، مگر اب اس سے بڑا ایک شکریہ ادا کرنے کو جی چاہ رہا ہے اس لیے ان احباب سے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق اپنے حالیہ دورۂ بغداد کے دوران صدر ٹرمپ نے امریکہ کے عالمی پولیس مین کے کردار کے اختتام کا اعلان کیا ہے اور اپنے (۱) سب سے پہلے امریکہ (۲) کثیر القومی اتحادوں اور (۳) مشرق وسطٰی کی جنگوں سے علیحدگی کے فیصلوں کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ یہ انصاف نہیں کہ سب کا بوجھ ہم برداشت کریں، اب ہم ان کاموں کے لیے فنڈ نہیں دیں گے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ہم اس وقت پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں حتٰی کہ ان ملکوں میں موجود ہیں جن کا کسی نے نام بھی نہیں سنا، یہ مضحکہ خیز صورتحال ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں امریکی فوج کی تعیناتی میں توسیع کی امریکی جرنیلوں کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ نے بغداد کا یہ دورہ عراق میں تعینات فوجیوں کو کرسمس کی مبارکباد دینے کے لیے کیا تھا۔
امریکی صدر کے اس بیان کی تفصیلات پر غور کرتے ہوئے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے ہم کوئی خواب دیکھ رہے ہیں۔ ویسا ہی خواب جو امریکہ کے سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر کنگ نے صدر جان ایف کینیڈی کے دور صدارت میں واشنگٹن میں سیاہ فام امریکیوں کے ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے اپنی قوم کو دکھایا تھا اور وہ صرف خواب نہیں رہا تھا بلکہ جلد ہی اس نے تعبیر کا جامہ بھی پہن لیا تھا۔ صدر ٹرمپ جب برسر اقتدار آئے تھے تو ہم نے ایک کالم میں عرض کیا تھا کہ اس قسم کے صاف گو لوگ دو دھاری تلوار ہوتے ہیں جو دونوں طرف چلنے کی یکساں صلاحیت رکھتے ہیں، اور اس توقع کا اظہار بھی ہم نے کیا تھا کہ اب امریکی پالیسیوں پر پیچدار ڈپلومیسی کی دھند کم ہوگی اور بہت کچھ صاف دکھائی دینے لگے گا، چنانچہ دھیرے دھیرے اسی طرف بات بڑھتی نظر آرہی ہے۔
امریکہ نے پہلی جنگ عظیم کے بعد عالمی قیادت کے محاذ پر یورپین قوتوں کے اضمحلال کو دیکھتے ہوئے ان کی جگہ سنبھالنے کا فیصلہ کیا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ہیروشیما اور ناگاساکی سے عالمی چودھراہٹ میں دھماکہ دار انٹری کے ساتھ ایک نئی اور سائنٹیفک چودھراہٹ کا آغاز کیا تھا جو کچھ عرصہ تو ریموٹ کنٹرول رہی مگر آہستہ آہستہ اس نے چلمن سرکاتے ہوئے عراق، شام اور افغانستان میں اس چودھراہٹ کا آخری سین بھی دکھا دیا۔ ورنہ جنگ عظیم اول سے پہلے کا امریکہ آج کے امریکہ سے قطعی مختلف تھا اور تاریخ کے ہمارے جیسے طالب علموں کو امریکہ کے ماضی اور حال یعنی جنگ عظیم سے قبل اور بعد کے امریکہ میں مطابقت کے پہلو تلاش کرنے میں خاصی دشواری ہوتی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اب سے تین عشرے قبل جب میں پہلی بار امریکہ گیا تو جیفرسن کی یادگار اور پینٹاگون کے درمیان چند کلومیٹر کا فاصلہ مجھے صدیوں کا سفر لگا، اور جیفرسن کی یادگار کے سائے میں کھڑا میں سوچتا رہ گیا کہ کیا جیفرسن اسی امریکہ کا صدر تھا اور کیا ابراہام لنکن او رجارج واشنگٹن نے اسی امریکہ کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا تھا؟
یہ سوچنا امریکیوں کا کام ہے کہ گزشتہ پون صدی کی عالمی چودھراہٹ نے انہیں کیا دیا ہے اور ان سے کیا کچھ چھین لیا ہے؟ ان کا یہ سفر مستقبل کے لیے تھا یا وہ اپنے ماضی سے محروم ہونے کے راستے پر سفر کرتے رہے ہیں؟ مگر تاریخ اور سماج کے کسی طالب علم کے لیے یہ بات بہرحال اطمینان کے ایک پہلو کی حیثیت رکھتی ہے کہ امریکی صدر مسٹر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی قوم کے نفع و نقصان کو انصاف کے ترازو پر جانچنے کی سوچ رکھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے امریکہ، کثیر القومی اتحادوں اور مشرق وسطٰی کی جنگوں سے علیحدگی کا جو ایجنڈا پیش کیا ہے اس کی نزاکتوں، حساسیت اور منفی و مثبت اثرات سے ہم بے خبر نہیں ہیں اور اسی لیے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے سے ہچکچا رہے ہیں۔ مگر کسی امریکی صدر کی یہ بات بھی خوشی کی بات ہے کہ انہیں امریکہ کے عالمی پولیس مین ہونے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ ہم مزید تفصیلات میں جائے بغیر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں اور ان سے کسی حد تک یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ شاید موجودہ امریکی قوم کو جنگ عظیم اول سے پہلے کے امریکہ سے روشناس کرانے میں کامیاب ہو جائیں۔
ہفت روزہ خدام الدین کے پرانے رسائل:
قارئین کو یاد ہوگا کہ محترم صلاح الدین فاروقی، مولانا صالح محمد حضروی اور راقم الحروف نے جماعتی، مسلکی اور تحریکی تاریخ کو منضبط کرنے کی غرض سے ایک پروگرام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت پہلے مرحلہ میں ہفت روزہ ترجمان اسلام اور ہفت روزہ خدام الدین کا ریکارڈ مکمل کرنے کے منصوبہ پر کام جاری ہے۔ محترم صلاح الدین فاروقی نے اس مقصد کے لیے کم و بیش دس شہروں کا دورہ کر کے دستیاب رسائل کی فہرستیں مرتب کی ہیں۔ ہم ان دو رسائل کی مکمل جلدیں مرتب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے لیے گزشتہ ہفتہ کے دوران ہماری ایک میٹنگ جامعہ حنفیہ تعلیم الاسلام جہلم میں مولانا مفتی محمد شریف عامر اور مولانا قاری ابوبکر صدیق کے ساتھ ہوئی ہے جس میں آئندہ کی ترتیب طے پائی ہے۔ احباب سے اس سلسلہ میں دعا کی درخواست کے ساتھ یہ گزارش ہے کہ ہفت روزہ خدام الدین لاہور کے درج ذیل تاریخوں کے رسائل اگر کسی دوست کے پاس موجود ہوں تو ان تک رسائی میں تعاون فرمائیں۔
(20-مئی-1955) (27-مئی-1955) (10-جون-1955) (17-جون-1955) (1-جولائی-1955) (8-جولائی-1955) (19-جولائی-1955) (26-جولائی-1955) (12-اگست-1955) (9-ستمبر-1955) (22-جنوری-1982) (29-جنوری-1982) (12-فروری-1982) (9-جولائی-1982) (1-مارچ-1985) (14-مارچ-1985) (28-مارچ-1985) (5-اپریل-1985) (25-جون-1985)
(مطبوعہ: روزنامہ اسلام، 30 دسمبر 2018ء)

Share To:

Unknown

Post A Comment:

0 comments so far,add yours