دہشت گردی کے بعد رجعت پسندی کے خلاف جنگ

 ازقلم : حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب

ایک مقتدر شخصیت کا یہ بیان پڑھ کر ذہن میں ایک نیا مخمصہ ابھر آیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کے بعد اب رجعت پسندی سے جنگ ہوگی۔ خدا جانے ان کے سامنے رجعت پسندی کا کونسا نقشہ ہے مگر یہ بات بہرحال فکر و نظر کو متوجہ کرنے لگی ہے کہ دہشت گردی کا تو ابھی تک کوئی واضح مفہوم طے نہیں پا سکا اور عالمی، علاقائی یا قومی دائروں میں یہ فیصلہ بہرحال ارباب حل و عقد کے ہاتھ میں ہی ہے کہ وہ جسے چاہیں دہشت گرد قرار دے کر قابل گردن زدنی ٹھہرا دیں۔ دہشت گردی کے خلاف جب عالمی سطح پر بگل بجایا گیا تو یہ تقاضہ سامنے آیا تھا کہ اس کی تعریف طے کر لی جائے تاکہ دہشت گردی اور مظلوم اقوام کی جنگِ آزادی کے درمیان کوئی فرق واضح ہو سکے اور اس کے ساتھ ہی اسلامی جہاد اور دہشت گردی کے درمیان حد فاصل متعین ہو جائے۔ مگر اس کا تکلف روا نہ رکھتے ہوئے طبل جنگ بجا دیا گیا جس کے نتیجے میں دہشت گردی، جہاد اور جنگ آزادی سب کچھ گڈمڈ ہو کر رہ گیا اور اب شاید ’’رجعت پسندی‘‘ کی اصطلاح کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونے جا رہا ہے۔

رجعت پسندی کی نفی جب مغرب اور اس کے ہمنوا حلقے استعمال کرتے ہیں تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ:

 * ریاست کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہ رہے۔

* دنیا کی تمام تہذیبیں اور ثقافتیں اپنے ماضی اور روایات سے دستبردار ہو کر مغربی فلسفہ و ثقافت کے سامنے سرنڈر ہو جائیں۔

* عالمگیریت کے نام پر مغرب کے مسلط کردہ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور تہذیبی ماحول و نظام کو بہرحال قبول کر لیا جائے۔

* خدا، رسول اور آسمانی تعلیمات کو عبادت خانوں کی چار دیواری میں محدود کر دیا جائے اور اجتماعی معاملات میں ان کا کوئی حوالہ نہ دیا جائے۔
دوسرے لفظوں میں ماضی کی طرف لوٹنا اور آسمانی تعلیمات کو سیاسی، معاشرتی، معاشی اور قانونی معاملات کو راہنما قرار دینا آج کے معروف فکر و فلسفہ کی رو سے رجعت پسندی کہلاتا ہے۔ البتہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عمومی ماحول میں اس مبینہ رجعت پسندی سے پیچھا چھڑانا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ قیام پاکستان کے مقصد کے حوالہ سے بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم اور ان کے رفقاء کی واضح تصریحات تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ و موجود ہیں کہ وہ اس نئی ریاست کو اسلامی تعلیمات اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کے ازسرنو معاشرتی کردار کے لیے تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں، جو ظاہر ہے کہ مذکورہ بالا معروف مفہوم میں رجعت پسندی ہی کہلائے گا۔ اور ایسا کرنا اس لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور خود اس بات کا داعی اور ضامن ہے کہ:
* اس ریاست میں حاکمیت اعلٰی اللہ تعالٰی کی تسلیم کی گئی ہے
* قرآن و سنت کو دستور و قانون کی راہنمائی اور تشکیل میں سرچشمہ کی حیثیت حاصل ہے۔
* ریاست، آسمانی تعلیمات کی روشنی میں اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور فروغ کی پابند ہے۔
* اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ اس ریاست کا بنیادی ہدف ہے
پھر ان دستوری صراحتوں کے ساتھ ساتھ کم و بیش تمام قومی راہنما اور مقتدر شخصیات گزشتہ سات عشروں سے تسلسل کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور خلفاء راشدین کی مثالی حکومتوں کو راہنما اور آئیڈیل قرار دیتے چلے آرہے ہیں، حتٰی کہ موجودہ حکومت نے تو اپنے آئیڈیل نظامِ حکومت کے لیے ٹائٹل ہی ’’ریاست مدینہ‘‘ کا اختیار کیا ہے جس کا کم و بیش ڈیڑھ ہزار سال قبل کے ماضی کی طرف رجوع اور واپسی کے بغیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس تناظر میں ’’رجعت پسندی‘‘ کا کوئی طعنہ سن کر یوں لگتا ہے جیسے ہم خود اپنے خلاف لڑنے کی باتیں کر رہے ہیں اور اپنی نظریاتی، اعتقادی اور تہذیبی بنیادوں کو ہی اکھاڑ دینے کے درپے ہیں۔
رجعت پسندی سے مراد اگر تنگ نظری، فرقہ پرستی ، شخصی یا طبقاتی مفادات کی اسیری، اور ملکی و ملی تقاضوں سے انحراف ہے تو اس کے مذموم ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے اور اس کے خلاف جنگ میں کوئی محب وطن شہری اور سلیم الفطرت مسلمان پیچھے نہیں رہے گا۔ مگر رجعت پسندی کی اصطلاح کا جو مفہوم و مطلب آج کی بالادست قوتوں کا طے کردہ ہے اور جسے امت مسلمہ سے بہرحال قبول کروانے کے لیے تخویف و تحریص کے سارے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، اسے ہدف قرار دے کر کیا جانے والا کوئی بھی اعلان جنگ خود اپنے خلاف ہی سمجھا جائے گا۔ ہم قومی سوچ اور ملی تقاضوں کو دیمک کی طرح چاٹ لینے والی ’’رجعت پسندی‘‘ کے خلاف جنگ کے حق میں ہیں اور اسے قومی وحدت و ملکی استحکام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، مگر اس کا مفہوم اور حدود اربعہ طے ہونا چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی طرح یہ تجربہ پھر نہیں دہرایا جانا چاہیے کہ ڈیڑھ عشرے سے زیادہ عرصہ تک جنگ لڑنے اور بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دینے کے بعد بالآخر ہمارے وزیراعظم کو یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ’’ہم آئندہ غیروں کی جنگ نہیں لڑیں گے۔‘‘
 اس لیے گزارش ہے کہ رجعت پسندی کے خلاف مجوزہ جنگ اگر قومی تقاضوں اور ملی مقاصد کے لیے ہے تو بسم اللہ، پوری قوم حاضر ہے، مگر یہ جدوجہد قیام پاکستان کے نظریاتی مقاصد کی تکمیل اور دستور پاکستان پر مخلصانہ عملدرآمد کے لیے ہوگی تو بات آگے بڑھے گی، اور اسے ’’غیروں کی جنگ‘‘ کے تاثر سے بچانا ہوگا جبکہ ہمارے خیال میں اس ملک کے عوام کو کافی حد تک اب اس بات کا تجربہ اور ادراک ہو گیا ہے کہ کونسی جنگ ہماری ملی ضروریات کے لیے ہے اور کونسی جنگ ایسی ہو سکتی ہے جس کے بعد ہمیں پھر سے یہ نہ کہنا پڑ جائے کہ آئندہ ہم غیروں کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر دستور پاکستان کو قوم کا حقیقی بیانیہ سمجھ لیا جائے اور اسے آزادی اور اعتماد کے ماحول میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے تو ہمیں نہ کسی نئے بیانیے کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی کوئی جنگ لڑنا پڑے گی، مگر اس کے لیے شرط ہے کہ دستور کو فریزر سے نکال کر اپنا کام کرنے دیا جائے اور تمام مقتدر ادارے دستور کی حاکمیت اور بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

 (روزنامہ اوصاف، 27 دسمبر 2018ء)

Share To:

Unknown

Post A Comment:

0 comments so far,add yours