سفری ڈائری  اصحاب کہف ترکی میں

از سہیل باوا 🖼

🏢منزل کی طرف  🏢

 اس سفر ترکی میں احباب سے ملاقات کی مصروفیات کی وجہ سے  بہت سے مقامات صرف راقم کی گزرگاہ ہی رہی۔الحمد اللہ معلومات کی حد تک تو کافی خزانہ موجود تھا، لیکن دیکھنے کا موقع نہیں  ملا۔۔
ازمیر سے قریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر “سلچوک” نامی قصبہ موجود ہے۔ یونانی تہذیب میں اس علاقے کو “ایفس” کے نام سے جانا ہے۔ اس کی وجہ یہاں پر پائے جانے والے یونانی آثار قدیمہ ہیں جنہیں عیسائیت کے ابتدائی دور سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ تعمیرات آج بھی سیاح کے لئے قابل رشک ہیں۔ یونیسکو کی جانب سے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیئے جانے والے اس مقام پر تاریخی ایمفی تھیٹر آج بھی کم و بیش اپنی اصلی حالت میں موجود ہے۔ ایفس سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر “اصحاف کہف”کا مقام بھی واقع ہے۔ اس مقام سے متعلق مختلف روایات ہیں اور کچھ تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ سات نوجوانوں کا غار دراصل اردن میں ہے۔ تاہم تاریخ دانوں کی اکثریت اور عیسائی پیشوااس بات پر مصر ہیں قدیم ایفس شہر کے باہر موجود پہاڑوں پر ہی اصحاب کہف کی غار واقع ہے۔ اس مقام پر سات نوجوانوں کے علاوہ دیگر قبریں اور ایک عبادت خانے کی عمارت کی باقیات بھی موجود ہیں۔ اس گرجے کی موجودگی کا تذکرہ تاریخی واقعات اور عیسائی مذہبی تعلیمات میں بھی ملتا ہے۔اس کے علاوہ ایفس ہی وہ شہر ہے جہاں اس واقعے سے منسلک بادشاہ حکمران رہے۔ اس لئے قویٰ مکان ہے کہ اصحاب کہف اسی مقام پر کئی سو سالوں کیلئے سوئے رہےاور بعد ازاں موت کے بعد یہیں دفن ہوئے تو ان کے غار کے سامنے عیسائی عبادت خانہ بنا دیا گیا۔ کئی صدیوں سے لوگ اس جگہ کی زیارت کرتے آ رہے ہیں۔ یہیں موجود درختوں کی شاخوں پر زائرین مختف اشیاء باندھ کر منتیں بھی مانتے۔  موجودہ سلچوک شہر سے کوئی بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر وہ مقام واقع ہے جس کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ  یہاں حضرت مریم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور یہیں موجود ایک گھر میں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام بھی گزارے۔ اس کے علاوہ اسرائیل میں واقع ایک مقام کو بھی حضرت مریم کی جائے پیدائش تصور کیا جاتا ہے۔  یہ خوبصورت ساحلی پٹی کا  علاقہ سارا سال مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنارہتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ چشمے کے دیدار کے بغیر ازمیر کی سیاحت نامکمل ہے تو غلط نہ ہو گا۔ یہاں سمندر کا پانی انتہائی پر سکون ہے جبکہ شفافیت ایسی ہے کہ آنکھ زیر سطح موجود ہر چیز دیکھ سکتی ہے۔ گرمی ہو یا سردی یہاں کے قدرے گرم مرطوب پانی میں نہانے کا بھرپور مزہ لیا جا سکتا ہے۔ چشمے کے قریب “الاجاتی” نامی مقام پر قدیم ونڈملز کے ڈھانچے آج بھی موجود ہیں۔ یہیں پر غیر ملکی سیاحوں کی تواضع کیلئے ایک بڑا علاقہ صرف اور صرف “بارز” پر مشتمل ہے۔ رنگ برنگی دیواریں، دروازےاور کھڑکیاں انتہائی پرکشش محسوس ہوتی ہیں تو گلیوں کا پتھروں کی مدد سے پکا کرنے کا انداز بالکل یونانی طرز کا ہے۔ گزشتہ چھ صدیوں سے مسلسل مسلمان حکمرانوں کے زیر حکومت رہنے کے باوجود ازمیر اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں نے ہزاروں سال پرانی یونانی ثقافت کو برقرار رکھا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی باغیانہ روش ہی کے سبب خلافت عثمانیہ کے دوران بھی ان علاقوں کو “منکرین کا علاقہ” پکارا جاتا تھا۔ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایسا کہا جانے کی وجہ یہ بھی تھی کہ مقامی آبادی میں مسلمان اور عیسائی تقریباً برابر تناسب میں موجود تھے














Share To:

Unknown

Post A Comment:

0 comments so far,add yours